انڈونیشیا: 'اسلامک فیشن' میں سب آگے
6 ستمبر 2010اس سال عید کے موقع پر ملائشیا کی شریفہ احمد نے خاص لباس بنوائے ہیں۔ان لباسوں کے ساتھ میچنگ اسکارف بھی ہے، مگر ان کپڑوں کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ انڈونیشیا میں تیار ہوئے ہیں اور شریفہ اپنے ان کپڑوں سےبہت خوش ہیں ان کے مطابق یہ لباس بہت گلیمرس تو نہیں لیکن پر وقار ہیں۔
شریفہ کا شمار خطے کی ان مسلم فیشن ایبل خواتین میں ہوتا ہے جو کہ دس ستمبر کو آنے والی عید کے تہوار کے لئے نئے اور خاص کپڑے بنوانے کی غرض سے انڈونیشیا کا رخ کر رہی ہیں۔ ایسی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انڈونیشیا کی فیشن کی صعنت میں جون تک بیس سے تیس فیصد اضافہ ہوا ہےاور اس کا سہرا شریفہ جیسی پڑوسی ممالک،ملائشیا اور سنگاپور سے آنے والے خریداروں کے سر ہے۔
کپڑوں کی تجارت کرنے والی خاتون عزیزہ کا کہنا ہے کہ ہمسائے ملک سے بسوں میں بھر بھر کر خواتین جکارتا اور یوگیاکارتا جیسے شہروں کے کپڑوں کے مارکیٹ آتی ہیں اور لباس بنانے کے لئے کپڑے اور بنے بنائے اسکارف اور سلاے سلائے لباس لے کر جاتی ہیں۔ عزیزہ نے مزید کہا 'یہ خواتین بسوں میں آتی ہیں اور جو کپڑا پسند آتا ہے اس کو دس سے بیس کی تعداد میں خرید لیتی ہیں اور اکثر اپنے ملک جاکر فون کے ذریع مزید آرڈر بھی دیتی ہیں'۔
شریفہ نے بتایا کہ اس نے یہ کپڑے مہز 6 لاکھ انڈونیشی روپیے جو کہ 66 امریکی ڈالر کے برابر ہوتے ہیں۔
ایک کپڑوں کے تاجر ویشال کمار نے بتایا کہ کچھ لوگ اپنے لئے خریداری کرتے ہیں اور کچھ ایک ہی طرح کے مختلف رنگوں میں کپڑا لے لیتے ہیں اور پھر ان کو یہاں ہی سلواتے ہیں اور قیمت بڑھا کر اپنے ملک میں بوتیکوں میں بیچتے ہیں۔
عید کے موقع پر 'اسلامک فیشن ڈیزائنر' Dian Pilangi نے قاہرہ،ابو ظہبی،لندن،اسٹریلیا اور ملیشیا میں کئی نمائشوں کا اہتمام کیا اور ڈھائی ملین کے عوزکافی کپڑے بیچے.
ڈیان پیلانگی کا کہنا ہے 'عربی خواتین بہت پُر کشش اور محسور کن ہوتی ہیں اور وہ اپنے پہننے اوڑھنے کے بارے میں کافی فکر مند بھی ہوتی ہیں اور مشرق ِ وسطیٰ کے لوگ زیادہ بارگیننگ یا مول تول نہیں کرتے ہیں اگر کچھ پسند آجائے تو فوراً اور وافر مقدار میں خرید لیتے ہیں ، کبھی کبھی تو ایک ہی چیز بیس سے تیس کی تعداد میں خرید لیتے ہیں۔
انڈونیشیا میں کم قیمت میں اعلیٰ معیار، اچھے ڈیزائن اور کپڑوں کی مختلف اقسام ملتی ہیں۔
سنگاپور کی ایک کپڑوں کی کمپنی 'سیکنڈ چانس پراپرٹی لمیٹد' کے ڈائریکٹر نے کہا کہ وہ اپنی در آمداد میں سے بیس فیصد انڈونشیا سے منگواتے ہیں اور اس کو دوگنی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا 'ہم انڈونیشیا سے اس لئے کپڑا خریدتے ہیں کیونکہ وہ سستا ہوتا ہے اور ہم جیسے تاجروں کے لئے قیمت سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہم کپڑوں پر موتیوں کا کام بھی چاہتے ہیں اور ملیشیا اور چین سے ہمیں ایسا کام نہں مل سکتا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلامک فیشن کے لئے ملیشیا اور سنگاپور کی طرف ہی دیکھتے ہیں'۔
وزیرِ صعنت ایم ایس ہدایت نے کہا کپڑوں کی مصنوعات کی برآمداد پچھلے سال 9.26 بلین امریکی ڈالر تھی جو کہ بڑھ کر اب دس بلین امریکی ڈالر ہوگئی ہے۔
انڈونیشیا کے فیشن ڈیزائنر ایسوس ایشن کے چیرمین کا کہنا ہے کہ ان کو امید ہے کا انڈونیشیا کے فیشن ڈیزائنر دنیا کے اسلامی لباس کے بارے میں یہ خیال بدلنے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ اسلامی لباس فیشن سے دور، اوردقیانوسی ہے، ان کا کہنا تھا 'کبھی کبھار جب اسلام یا مسلمانوں کا ذکرہوتا ہے تو لوگ ڈر جاتے ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ اسلام ایک خوف ناک دین ہے مگر اسلامی لباس فیشن ایبل اور باحیا دونوں ہوسکتا ہے۔
رپورٹ: سمن جعفری
ادارت: کشور مصطفیٰ