اوباما، ریپبلکن رہنما مالیاتی حل کی تلاش میں
12 اکتوبر 2013امریکا میں وفاقی حکومت کو اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے جن مالی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے، وہ سارے حکومتی آمدنی سے پورے نہیں ہوتے بلکہ وفاقی انتظامیہ کو بہت سے قرضے بھی لینا پڑتے ہیں۔ ان مسلسل حکومتی قرضوں کی ایک طے شدہ قانونی حد مقرر ہے۔
اوباما انتظامیہ چونکہ اس قانونی حد سے تجاوز نہیں کر سکتی اور کانگریس کے ریپبلکن ارکان کی تائید حاصل کرتے ہوئے ابھی تک زیادہ سے زیادہ ریاستی قرضوں کی حد میں ایک بار پھر اضافہ بھی نہیں ہو سکا ہے، اس لیے واشنگٹن حکومت کو گزشتہ قریب دو ہفتوں سے مالی وجوہات کی بناء پر شٹ ڈاؤن کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ریاستی قرضوں کی موجودہ حد میں اضافے کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس اور کانگریس میں ریپبلکن قیادت کے مابین قربت کا عمل انتہائی سست رفتار ہے۔ مطلب یہ کہ فریقین ایک ایک انچ کر کے ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق باراک اوباما اور کانگریس میں ریپبلکن پارٹی کی لیڈرشپ کے مابین زیادہ اختلاف اس وقت اس بارے میں ہے کہ امریکا میں وفاقی حکومت کے دفاتر دوبارہ کھولنے اور زیادہ سے زیادہ ریاستی قرضوں کی موجودہ حد میں اضافے کے لیے مختصر مدت کا جو معاہدہ طے پائے گا، اس کی شرائط کیا ہوں گی اور اس کی میعاد کتنی ہو گی۔
کل جمعے کی رات ہی صدر اوباما نے وائٹ ہاؤس میں ریپبلکن رہنماؤں سے ملاقات کرنے کے علاوہ ایوان نمائندگان کے ریپبلکن اسپیکر جان بوہنر کے ساتھ بھی ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو قرضوں کی قانونی حدود کے باعث درپیش مالیاتی بحران کے حل کی کوششیں اب تیز ہوتی جا رہی ہیں۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ امریکا میں وفاقی حکومت کے لاکھوں ملازمین شٹ ڈاؤن کی وجہ سے جبری رخصت پر بھیجے جا چکے ہیں۔ قریب دو ہفتوں سے کام نہ کرنے کے باعث ان ملازمین کو ان کی تنخواہیں بھی نہیں مل رہیں۔ اس کے علاوہ فریقین کو ہر حال میں اس بات پر بھی اتفاق کرنا ہو گا کہ سترہ اکتوبر کے بعد کے عرصے کے لیے حکومت کے سرکاری قرضے لینے کے اختیارات میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا جائے۔
اس لیے صدر اوباما کی قیادت میں وفاقی حکومت کو ریاستی دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے ایسا کرنا ہی ہو گا کہ قرض لے سکنے کی موجودہ حد میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا جائے۔ اس کام کے لیے واشنگٹن حکومت کے پاس آج ہفتے کے بعد صرف پانچ دن کا وقت بچا ہے۔
روئٹرز کے مطابق اس وقت یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ فریقین اپنے اپنے اختلافی نقطہ نظر میں اب تک ایک دوسرے کے کتنے قریب آ چکے ہیں۔
ڈیموکریٹ اور ریپبلکن نمائندوں میں سے کوئی بھی یہ بتانے پر آمادہ نہیں کہ اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے یا فریقین نے کن تفصیلات پر بحث کی۔ اس دانستہ خاموشی کے باوجود فریقین نے محتاط انداز میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ غالباً ایک بڑے مالیاتی بحران سے بچا جا سکے گا۔ اس کے لیے لیکن امریکی قانون سازوں کو اپنی پھرپور کوششیں موجودہ ویک اینڈ پر بھی جاری رکھنا ہوں گی تاکہ زیادہ سے زیادہ بھی اگلے ہفتے کے اوائل میں کوئی معاہدہ طے پا جائے۔
مقصد یہ ہو گا کہ سترہ اکتوبر کے بعد اٹھارہ اکتوبر امریکی حکومت کے دیوالیہ پن کے آغاز کا دن نہ بن جائے۔ اس وقت امریکا میں قریب ایک تہائی افراد کی سوچ یہ ہے کہ حکومتی شٹ ڈاؤن کے ذمہ دار ریپبلکن سیاستدان ہیں۔