اوباما کے دور میں ایک سو سترہ شہری ڈرون حملوں کا نشانہ بنے
20 جنوری 2017امریکی خفیہ اداروں کی طرف سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سن 2009 تا دسمبر 2016 تک انسداد دہشت گردی کے لیے 526 حملے کیے گئے، جن میں بغیر پائلٹ کے ڈرون حملے بھی شامل تھے۔ ان ڈرون حملوں میں 117 عام شہری ہلاک ہوئے۔ امریکی صدر باراک اوباما کے دور اقتدار کے دوران ایسے حملے پاکستان، یمن اور دیگر ممالک میں کیے گئے۔
ڈرونز کے خطرناک حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے واشنگٹن حکام کو عالمی سطح پر پیدا ہونے والے دباؤ کا سامنا ہے۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکی اداروں کی تیار کردہ یہ دوسری جائزہ رپورٹ ہے۔ موجودہ رپورٹ امریکا کے نیشنل انٹیلیجنس ادارے نے مرتب کی ہے۔
امریکی خفیہ ایجنسیوں کے نیشنل ڈائریکٹر جیمز کلیپر کے مطابق سن 2009 کے بعد اگلے سات برسوں میں انسداد دہشت گردی کے تناظر میں ڈرونز کے ذریعے کیے گئے حملوں سمیت مجموعی طور پر 526 کارروائیاں کی گئیں۔ اس رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ انسداد دہشت گردی کے یہ پانچ سو سے زائد حملے کن کن مقامات پر کیے گئے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکی محکمہٴ دفاع اور خفیہ ادارہ سی آئی اے اپنے اہداف پر خاص طور پر ڈرونز حملے پاکستان، یمن، افغانستان، صومالیہ اور لیبیا میں کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان ملکوں کے مختلف اور مخصوص مقامات کے حوالے سے امریکی حکام کا خیال ہے کہ اِن علاقوں میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ایک سو سترہ عام شہریوں کے علاوہ اوباما کے آٹھ برسوں کے دورِ صدارت کے دوران ڈرونز کے ذریعے کیے گئے حملوں میں 2800 اور 3000 کے درمیان مبینہ عسکریت پسندوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔ امریکی حکام کا اصرار ہے کہ ہلاک شدگان میں زیادہ تر دہشت گردی سے منسلک افراد تھے۔ غیر سرکاری تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد رپورٹ میں بتائی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے اور ان میں عام شہری بھی شامل ہیں۔
امریکی ڈرون حملوں کی پالیسی پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے شہری ہلاکتوں کے تناظر میں خاص طور پر کڑی تنقید کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان اداروں اور تنظیموں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ڈرون حملوں میں مزید شدت آ سکتی ہے۔