آئندہ دو ہفتے نہایت تکلیف دہ ہوں گے، ٹرمپ
1 اپریل 2020مبصرین کے مطابق اپنی گفتگو سے صدر ٹرمپ نے بظاہر پہلی بار یہ تاثر دیا کہ انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ امریکا کو کتنے بڑے اور سنگین بحران کا سامنا ہے۔
اپنی گفتگو میں صدر ٹرمپ اپنی حکومت کی تعریف سے اجتناب کرتے نظر آئے۔ لگ بھگ دو گھنٹے کی اس بریفنگ میں انہوں نے خود زیادہ بولنے کے بجائے سینیئر ماہرین کو موقع دیا کہ وہ اعداد و شمار کی مدد سے حقیقی صورتحال پر آگہی دیں۔
اس موقع پر صدر ٹرمپ کی کورونا سے متعلق ایمرجنسی ٹاسک فورس کے سینیئر ارکان نے خبردار کیا کہ اگر وبا کا پھیلاؤ نہ رک سکا تو امریکا میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ چالیس ہزار تک جا سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے شروع میں اس بحران کے خطرات کو رد کیا اور مصُر رہے کہ امریکا جلد بازی میں کوئی انتہائی اقدام نہیں اٹھائے گا جس سے معیشت کو نقصان پہنچے۔
ناقدین کے نزدیک صدر ٹرمپ نے متحرک ہونے میں تذبذب سے کام لیا جس کے بعد چند ہفتوں کے اندر امریکا نے کورونا کے کیسز اور اموات میں چین، اٹلی، اسپین کو پیچھے چھوڑ دیا۔
ایک ماہ پہلے تک صدر ٹرمپ کا اصرار تھا کہ کورونا ایک عام طرح کا نزلہ زکام ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا، "امریکا میں پچھلے سال سینتیس ہزار لوگ فلو کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن کہیں کوئی کاروبار بند نہ ہوا اور معیشت چلتی رہی۔"
لیکن اب جبکہ امریکا میں کورونا کیسز کی تعداد دو لاکھ اور ملک بھر میں اموات کی تعداد چار ہزار کو چھو رہی ہے تو ان کو ماننا پڑا ہے کہ کورونا کوئی عام فلو نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ "خطرناک" ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے ایک بیان میں کہا کہ اگر ٹرمپ کئی ہفتوں تک کورونا کے خطرات سے انکاری رہنے کے بجائے جلد اور مؤثر اقدامات اٹھاتے تو شاید ملک میں اتنی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔
ش ج / ب ج (خبر رساں ادارے)