آئی اے ای اے کی رپورٹ میں’کچھ نیا نہیں‘ ہے، ایران
27 دسمبر 2023ایران نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی(آئی اے ای اے) کی اس رپورٹ میں 'کچھ نیا نہیں‘ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تہران نے مہینوں کی سست روی کے بعد حال ہی میں انتہائی افزودہ یورینیم کی پیداوار میں تیزی لائی ہے۔
ایران کے اعلیٰ جوہری اہلکار محمد اسلمی نے بدھ کے روز کہا، '' ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا اور ہماری سرگرمیاں ضوابط کے مطابق ہیں۔ ہم وہی 60 فیصد یورینیم افزودہ کر رہے ہیں، ہم نے کچھ بھی تبدیل نہیں کیا اور ہم نے کوئی نئی صلاحیت پیدا نہیں کی۔‘‘
آئی اے ای اے نے منگل کے روز جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ایران نے ''انتہائی افزودہ یورینیم کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے، یہ اضافہ 2023 ءکے وسط سے کیا گیا ہے۔" اقوام متحدہ کے نگراں ادارے کا کہنا تھا کہ ایران نے نومبر کے آخر سے اپنی 60 فیصد افزودہ یورینیم کی پیداوار میں تقریباً نو کلو گرام (20 پاؤنڈ) کی شرح سے اضافہ کر دیا ہے۔
جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے لیے اب بھی تقریباً 90 فیصد یورینیم کی اعلی افزودگی کی ضرورت ہے۔ ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے صلاحیت کے حصول کے لیے کسی بھی قسم کے عزائم سے مسلسل انکار کرتا رہا ہے اور اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کی سرگرمیاں مکمل طور پر پرامن ہیں۔ بظاہر ایران نے امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے غیر رسمی بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے یورینیم کی افزودگی کے عمل کو سست کیا تھا۔
لیکن حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک کے درمیان دشمنی میں شدت آئی ہے، دونوں ایک دوسرے پر اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کو بڑھاوا دینے کے الزامات لگا رہے ہیں۔
ایران نے بڑی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت اپنی طہ شدہ جوہری سرگرمیوں کی حدود پر عملد درآمد اس وقت روک دیا تھا، جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر 2018 میں اس جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ اس کے بعد ٹرمپ نے تہران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
آئی اے ای اے کی گزشتہ ماہ جاری کی گئی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق جوہری ڈیل کے خاتمے کے بعد سے ایران نے افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے کو معاہدے کے تحت منظور شدہ سطح سے 22 گنا تک بڑھا دیا ہے۔ محمد اسلمی ایران نے آئی اے ای اے کی تازہ ترین رپورٹ پر "میڈیا کے جنون" کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ غزہ کی جنگ سے ''عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔‘‘
ش ر ⁄ ا ا ( اے ایف پی)