ایرانی کھلاڑی ملک چھوڑنے پر کیوں مجبور؟
24 جنوری 2020ان کی اس بارے ميں تحرير کو چھ لاکھ سے زائد افراد نے لائيک کيا۔ اس پوسٹ میں کیمیا نے اپنے آپ کو ’ایران کی مظلوم خواتین میں سے ایک‘ بتایا۔ انہوں نے لکھا، ’’ہم میں سے کوئی بھی ایرانی حکومت کے لیے کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ ہم ان کے لیے محض ایک ہتھیار ہیں۔‘‘ کیمیا علی زادہ نے مزید لکھا کہ وہ بد عنوانی اور جھوٹ کا راستہ اختيار کر کے ترقی حاصل نہيں کرنا چاہتيں۔ ان کے بقول تائی کوانڈو، خوشحالی، تحفظ اور ايک صحت مند زندگی کے علاوہ ان کی کوئی خواہش نہیں۔
انسٹاگرام پر یہ الفاط ایران کی ایک ایسی کھلاڑی کی جانب سے لکھے گئے، جنہوں نے سن 2016 کے ریو ڈی جنیرو اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیت کر اپنے ملک کے ليے تاریخ رقم کی۔ وہ اولمپک تمغہ جیتنے والی پہلی ایرانی خاتون ہيں۔ اس وقت کی ایرانی قیادت اس ایتھلیٹ کی متعرف تھی۔ اس وقت ایرانی صدر حسن روحانی نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ علی زادہ نے دنیا کو اسلامی ایرانی کلچر سے روشناس کرایا اور ایرانی خواتین کی ہمت اور اہلیت کی نمائندگی کی۔ اس سب کچھ کے باوجود کيميا علی زادہ نے حال ہی ميں جب ایران چھوڑا، تو اس بارے ميں خبر ایرانی اخبارات کی زینت نہیں بن پائی۔ اخبارات نے صرف یہی رپورٹ کیا کہ انہوں نے ایران کی تائیکوانڈو ٹیم سے استعفی دے دیا ہے۔
اس ہفتے کے آغاز میں علی زادہ نے کہا تھا کہ وہ جرمنی کی طرف سے کھيلنا چاہتی ہیں لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ان کو جرمنی کی شہریت دے دی جائے ۔ جرمنی کی شہریت کے لیے یہاں مسلسل آٹھ برس رہائش ضروری ہے۔ البتہ انتہائی قابل ایتھلیٹس کے لیے ان قوانین میں گنجائش پیدا کی جا سکتی بشرطيہ کہ حکام سمجھتے ہوں کہ ایسا کرنا ملک يا کھيل کے مفاد ميں ہو گا۔
گرجا گھر کے دورے نے ملک بدری پر مجبور کیا
علی زادہ ايسے ایرانی ایتھلیٹس کی بڑھتی ہوئی فہرست میں تازہ ترين اضافہ ہیں، جنہوں نے یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ وہ اپنی حکومت کے پیادے نہیں بن سکتے، ایران چھوڑنے کا انتخاب کیا۔ اس فہرست میں سید فضل اللہ بھی شامل ہیں، جنہوں نے سن 2014 کے ایشیائی گیمز میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ جب عیسائیت قبول کرنے کا الزام لگا، تو وہ ایران سے فرار ہو گئے۔ وہ مختصر عرصہ جیل میں بھی رہے ۔ ان کے خلاف ثبوت صرف یہ تھا کہ انہوں نے سن 2014 کی ورلڈ چیمپئن شپ کے دوران میلان کے گرجا گھر کا دورہ کیا تھا۔ یہ ستائیس سالہ کھلاڑی اب جرمنی میں مقیم ہیں اور کھیلوں میں جرمنی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
اسرائیلی کھلاڑیوں کا مقابلہ کرنے والے ایرانی کھلاڑيوں پر غیر تحریری لیکن عالمگیر سمجھی جانے والی پابندی نے متعدد دیگر افراد کو بھی اسلامی جمہوریہ ایران سے دور کر دیا۔ جاوید اسفند یاری ایران چھوڑ کر جرمنی مقیم ہونے والے تیسرے کھلاڑی ہیں، جنہوں نے دو ہزار سولہ میں چیمپئن شپ جیتی لیکن کوچنگ ٹیم پر تنقید کے بعد ان کو اپنے اور اہل خانہ کی زندگی کا خوف لاحق ہو گیا۔ 2018ء کے ورلڈ جوڈو چیمپئن سعيد مولائی نے بھی گزشتہ برس جرمنی کا رخ کر ليا تھا۔ انہیں ایرانی حکام نے ٹوکیو میں ہونے والے عالمی جوڈو چیمپئن شپ کے دوران فائنل میں اسرائیلی حریف کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے سیمی فائنل سے اپنا نام نکالنے کا حکم دیا تھا۔ اسرائیلی کھلاڑیوں کا مقابلہ کرنے والے ایرانی کھلاڑیوں پر پابندی نے کئی دیگر کھلاڑیوں کو اسلامی جمہوریہ ایران سے دور کر دیا۔ اسی طرح 2010ء میں ایشیئن گیمز میں چاندی کا تمغہ جیتنے والے رحیلہ اسیمانی نے دو ہزار بارہ کے کھیلوں میں ایک اسرائیلی کھلاڑی کا مقابلہ کرنے کے بعد بیلجیم میں ہی رہنے کو فوقیت دی۔
شطرنج کی ابھرتی ہوئی کھلاڑی علی رضا فیروزہ نے بھی تہران کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ وہ گزشتہ چھ ماہ سے اپنے والد کے ساتھ فرانس میں مقیم ہیں۔ ایرانی شطرنج ایسوسی ایشن نے گزشتہ سال اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ فیروزہ آئندہ ایران کی نمائندگی نہیں کریں گی۔
اسکارف نہ لینا ملک چھوڑنے کا سبب
چھبیس سالہ میترا حجازی کو ایران کی قومی ٹیم سے اس لیے نکال دیا گیا تھا کہ انہوں نے روس کے شہر ماسکو میں اسکارف پہنے بغیر مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ ڈورسا ڈیر کشانی کو بھی دو سال پہلے اسی بنا پر ٹیم سے نکال دیا گیا تھا۔ اب وہ کھیلوں میں امریکا کی نمائندگی کرتی ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ شطرنج کی ریفری نے رواں سال اسکارف نہ پہننے پر تنقید کا سامنا کرتے ہوئے ملک واپس نہ لوٹنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ع ش، اسٹيفان نيسٹلر / ع س