ایردوآن کی قیادت میں ترکی یورپی یونین میں؟ ’کبھی بھی نہیں‘
25 اگست 2017وفاقی جرمن دارالحکومت سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق وزیر خارجہ گابریئل نے الزام لگایا کہ ترک صدر ایردوآن مستقبل بعید میں ترکی کی یورپی یونین میں ممکنہ رکنیت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
جرمنی کے کثیر الاشاعت عوامی روزنامے ’بِلڈ‘ میں شائع ہونے والے زیگمار گابریئل کے اس بیان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے برلن اور انقرہ کے پہلے سے کافی کشیدہ تعلقات میں مزید تلخی پیدا ہو جائے گی، خاص طور پر اس تناظر میں بھی کہ ترک صدر ایردوآن نے ابھی حال ہی میں جرمنی میں رہائش پذیر ترک نژاد شہریوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ چوبیس ستمبر کو ہونے والے جرمن پارلیمانی انتخابات میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا بائیکاٹ کر دیں۔
اس پس منظر میں زیگمار گابریئل نے کہا، ’’یہ بات واضح ہے کہ موجودہ حالات میں ترکی کبھی بھی یورپی یونین کی رکن ریاست نہیں بن سکتا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’اس کا سبب یہ نہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ ترکی یونین میں شامل ہو جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ ترک حکومت اور صدر ایردوآن بڑی تیزی سے ہر اس اصول اور شے سے دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں، جو یورپ میں لازمی تصور کی جاتی ہیں اور یورپی اقدار کا حصہ ہیں۔‘‘
ایردوآن کے حامیوں نے میری بیوی کو ہراساں کیا، جرمن وزیرخارجہ
ترکی انٹرپول وارنٹ کا غلط استعمال کر رہا ہے، میرکل
جرمن وزیر خارجہ ’اپنی حدود میں رہیں‘، ایردوآن
روئٹرز نے لکھا ہے کہ یورپی رہنماؤں کی طرف سے ماضی قریب میں صدر ایردوآن پر اس وجہ سے شدید تنقید کی جاتی رہی ہے کہ انہوں نے گزشتہ برس جولائی میں اپنے ملک میں مسلح افواج کے ایک حصے کی طرف سے بغاوت کی ناکام لیکن خونریز کوشش کے بعد سے اپنے مخالفین کے خلاف ایک باقاعدہ کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔
ترک نژاد جرمن شہری میرکل کو ووٹ مت دیں، ترک صدر ایردوآن
ایردوآن اگلے الیکشن میں بھاری کامیابی کے متمنی
’ایسے نہیں چلے گا‘ جرمن صدر کی اپنے ترک ہم منصب پر تنقید
ترکی عشروں سے یورپی یونین میں شمولیت کا خواہش مند ہے۔ وہ ابھی تک رکنیت کا باقاعدہ تسلیم شدہ امیدوار تو نہیں لیکن انقرہ نے اپنی یہ خواہش بھی تاحال ترک نہیں کی کہ وہ بہرحال اس یورپی بلاک کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
اس حوالے سے برسلز اور انقرہ کے مابین ابتدائی نوعیت کے لیکن برسوں پہلے شروع ہونے والے مذاکرات، جن کا مقصد ترکی کو مسلسل اصلاحات کے ساتھ بتدریج یورپی سیاسی، حکومتی اور معاشرتی اقدار اور معیارات کے قریب تر لانا تھا، باقاعدہ طور پر منقطع تو نہیں ہوئے لیکن ان میں کافی عرصے سے عملاﹰ جمود آ چکا ہے۔
یورپی ریاستوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ ترکی میں صدر ایردوآن جو صدارتی جمہوری نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں، اس کے بعد خود انہیں تو بے تحاشا اختیارات حاصل ہو جائیں گے لیکن ترکی مروجہ جمہوری اقدار سے بہت دور چلا جائے گا۔