ایمن الظواہری کا شخصی خاکہ
16 جون 2011الظواہری کو بن لادن کی زندگی میں ہی القاعدہ کا نائب سربراہ بنا دیا گیا تھا۔ پیدائشی طور پر مصر سے تعلق رکھنے والے الظواہری ماضی میں چند سال تک القاعدہ کے مرکزی ترجمان کا کام بھی کرتے رہے ہیں۔ ایمن الظواہری امریکہ پر 11 ستمبر سن 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے اب تک مختلف مواقع پر القاعدہ کی طرف سے بہت سے آڈیو اور ویڈیو پیغامات بھی جاری کر چکے ہیں۔
59 برس کی عمر کے ایمن الظواہری کا تعلق شمالی مصر میں ڈاکٹروں اور ماہرین تعلیم کے متوسط طبقے کے ایک خاندان سے ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے آنکھوں کے ایک سرجن ہیں۔ اب القاعدہ کے سربراہ کے طور پر بن لادن کا جانشین منتخب ہونے والے الظواہری نے چھوٹی عمر سے ہی عملی سیاسی میں بھرپور حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔
اس مصری شہری کی عمر ابھی 20 سال بھی نہیں تھی کہ وہ ملک کی سب سے پرانی اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمین میں شامل ہو گیا تھا۔ بعد میں الظواہری زیادہ شدت پسند نظریات کی حامل تنظیم جہاد اسلامی کے رکن بن گئے تھے، جس کے عسکریت پسندوں نے 1981 میں مصری صدر انور السادات کو قتل کیا تھا۔ انور السادات کے قتل کی وجہ ان کا اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ طے کرنا بنا تھا۔ صدر سادات کے قتل کے بعد مصر میں جو سینکڑوں مسلمان عسکریت پسند گرفتار کیے گئے تھے، ان میں الظواہری بھی شامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ایمن الظواہری نے غیر قانونی اسلحہ اپنے پاس رکھنے کے الزام میں جو تین سال جیل میں گزارے، انہی تین برسوں میں اس مصری ڈاکٹر کے نظریات مزید شدت پسندانہ ہو گئے تھے۔ 1985 میں جیل سے اپنی رہائی کے بعد ایمن الظواہری سعودی عرب چلے گئے تھے اور پھر وہاں سے افغانستان اور پاکستان۔ افغانستان میں سوویت یونین کے فوجی دستوں کے خلاف جنگ کے دوران اس آئی سرجن نے اس دور کے مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو کر بطور ایک معالج کے اپنی خدمات انجام دیں۔ ساتھ ہی وہ نوجوان لوگوں کو جہاد کے لیے بھرتی بھی کرتے رہے۔
ایمن الظواہری کو ان کی غیر حاضری میں ایک مصری عدالت کی طرف سے 1997 میں Luxor میں غیر ملکی سیاحوں پر کیے جانے والے ایک خونریز حملے کے سلسلے میں موت کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ 1998 میں الظواہری اسامہ بن لادن کی تنظیم اور ایسے دیگر عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ مل گئے تھے، جو عام مسلمانوں کو یہ دعوت دینے میں مصروف تھے کہ انہیں ’یہودیوں اور صلیبی جنگجوؤں کے خلاف جہاد‘ کرنا چاہیے۔
سن 2001 میں اس مصری نژاد عسکریت پسند رہنما کا نام امریکہ کو سب سے زیادہ مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں اسامہ بن لادن کے نام کے بعد دوسرے نمبر پر درج کر لیا گیا۔ اس وقت بھی امریکہ نے الظواہری کے سر کی قیمت 25 ملین ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ القاعدہ کے یہ نئے رہنما اب تک امریکہ کی طرف سے انہیں نشانہ بنانے کے لیے کی جانے والی کم ازکم ایک عسکری کوشش میں تو بال بال بچ گئے تھے۔ کئی بین الاقوامی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایمن الظواہری اس وقت پاکستان ہی میں کہیں روپوش ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک