ایک سو نصابی کتب پر پابندی، شدید تنقید کی زد میں
24 جولائی 2020واضح رہے کہ بورڈ کا استدلال ہے کہ قابل اعتراض مواد کے پائے جانے پر ان کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر رائے منظور حسین ناصر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اٹھارویں ترمیم کے بعد جب تعلیم ونصاب کا شعبہ مکمل طور پر صوبے کے ماتحت آیا تو 2015ء میں حکومت پنجاب نے ایک قانون بنایا جس کے تحت اگر کسی کتاب میں غیر اخلاقی، پاکستان مخالف، مذہب مخالف یا نظم ونسق کے خلاف مواد ہو تو اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ ان سو کتابوں میں توہین صحابہ کے حوالے سے مواد ہے جب کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کی تواریخ پیدائش غلط ہیں۔ تین جون کے پلان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ انگریزوں نے دیا تھا جب کہ مردم شماری کے حوالے سے لکھا گیا کہ وہ دسمبر دو ہزار چھ میں ہوئی تھی۔ اقوال زریں میں گاندھی کا قول لکھ دیا گیا۔ کیا مسلمانوں میں کوئی اچھا رہنما نہیں تھا۔ کیا اقوال علامہ اقبال اور قائد اعظم کے نہیں لیے جا سکتے تھے۔‘‘
’پاکستان میں تنقیدی سوچ کو دبایا جا رہا ہے‘
پنجاب کی يونيورسٹيوں ميں قرآنی تعليم، ليکن ترجمہ کون سا؟
سپریم کورٹ کا فیصلہ تنقید کی زد میں
ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ کتابوں میں اخلاقیات سے گرے ہوئے اسباق بھی ہیں، جیسا کہ ایک لڑکی باپ کو خط لکھتی ہے کہ میرا بوائے فرینڈ ہے تو تم روک نہیں سکتے۔ ہم نے 31 ناشروں کی 100 کتابوں پرپابندی لگائی ہے، جس میں آکسفورڈ، کیمبرج اور ٹاپ پبلسٹی بھی شامل ہیں۔
کیا مزید کتابوں پر بھی پابندی لگ سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب پر بورڈ کے سربراہ نے کہا، ''کم از کم 30 کمیٹیاں 10 ہزار کتابوں کا جائزہ لے رہی ہیں۔ ان کتابوں میں تاریخ، اردو، انگریزی، سوشل سائنسز اور دوسری کتب شامل ہیں، اگر ان کتابوں میں بھی قابل اعتراض مواد ہوا تو ایکشن لیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ کچھ کتابیں نظام تولید کے مضمون کی وجہ سے پابندی کی زد میں آئی ہیں: ''ہم نے متنازعہ امور کو نہیں چھیڑا ہے بلکہ ان کتب پر پابندی لگائی ہے، جنہوں نے قانون میں دیے گئے پانچ شرائط کی پابندی نہیں کی۔‘‘
'تنقیدی سوچ کا گلہ گھونٹنے کا حربہ‘
ناقدین اس فیصلے کو تنقیدی سوچ کا گلہ گھونٹنے کا ایک حربہ قرار دے رہے ہیں اور حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ اپنے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے فاشسٹ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے پر گہری نظر رکھنے والے معروف دانشور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے دقیانوسی سوچ میں جنرل ضیاء کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ پابندی اس بات کی عکاس ہے کہ ملک پی ٹی آئی کے دور حکومت میں فاشزم کے راستے پر چل پڑا ہے۔ یہ حکومت گڈ گورننس نہیں دکھا سکی تو اب یہ اندھا دھند طریقے سے ہر اس چیز کو نشانہ بنارہی ہے، جو ان کے ریاست مدینہ والے بیانیے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ او لیول اور اے لیول کا نصاب ملک میں واحد نصاب ہے، جس میں کسی حد تک تنقیدی سوچ اور حقیقی تعلیم دینے کی صلاحیت ہے: ''اب یہ دیکھنا ہے کہ ان کو بھی وہ ہی نصاب، کتب اور طریقہ امتحان دیا جاتا ہے، جو مدرسے میں چل رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو حکومت پر منافقت کا الزام لگے گا اور اگر درحقیقت ایسا ہوتا ہے تو پھر ہمارا نظام تعلیم مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا۔‘‘
کچھ ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ حکومت میں قدامت پرست اور جدیدیت کے حامی دونوں حلقے موجود ہیں اور پی ٹی آئی ان دونوں کو ہی خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے وابستہ ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر آثر اجمل کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو ملک کی مجموعی صورت حال کے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان علمی اعتبار سے ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ملک میں اس وقت ایسی قوتیں ہیں، جو ہر طرح کی تنقیدی، فکری اور تخلیقی سوچ کا گلہ گھونٹنا چاہتی ہیں اور ہر اس نظریے کو رد کرتی ہیں جو ان کے بیانیے کے مطابق نہیں ہے۔ جب کہ ایسی بھی قوتیں ہیں جو اس کے برعکس سوچتی ہیں اور وہ روشن خیالی اور رواداری کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت میں دونوں طرح کے عناصر موجود ہیں تو ایک طرف یہ حکومت مندر بنانے کی بات کرتی ہے، جس سے اس کا دنیا میں اچھا تاثر جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ کسی بیورکریٹ کو یہ اجازت دے دیتی ہے کہ وہ کتابوں پر پابندیاں لگائے۔ تو پی ٹی آئی دونوں طرف کے عناصر کو خوش رکھنا چاہتی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت قدامت پرست لوگوں کو خوش کرنے میں لگی رہی تو پھر امکان ہے کہ اس کے مثبت کاموں پر بھی پانی پھر جائے گا۔
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ نصاب کو نظریاتی بنیادوں پر دیکھنے سے تعلیم کو نقصان ہوگا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ کچھ قدامت پرست عناصر او لیول اور اے لیول میں نظام تولید اور دوسرے سائنسی مضامین پڑھانے پر چراغ پا ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان کے خیال میں یہ سیکس ایجوکیشن ہے اور وہ اپنا نظریاتی فرض سمجھتے ہیں کہ اس کو روکیں۔ لاہور کے کئی نامی گرامی اسکولوں نے بائیالوجی کی کتاب کے ایک مخصوص ایڈیشن کو خریدنے کے لیے والدین کوپیغام بھیجا ہے اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کتاب میں نظام تولید پر چیپڑ نہیں ہے۔ تو یہ منطق نظام تعلیم کے لیے زہر قاتل ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کتابوں پر پابندی تصوارت میں ابہام کی موجودگی کی بنیاد پر ہونی چاہیے: ''نظریات کی بنیاد پر پابندی لگا کر ہم رجعت پسندوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں، جنہوں نے پہلے ہی نظام تعلیم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔‘‘